دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
انسان سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے
No image سہولت کاروں کی چھتر چھایہ ہٹنے کے بعد عمران خان اس خوش فہمی کا شکار رہے کہ وہ فوج مخالف بیانیہ اپنا کر سول سپریمیسی کے علمبردار اور جمہوریت کے نشان بن جائیں گے۔انہوں نے نواز شریف بننے کی کوشش کی لیکن وہ یہ بھول گئے کہ نقل کے لیئے عقل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
نواز شریف کا ہدف ملٹری اشٹبلشمنٹ میں صرف دو شخصیات تھیں جن کا وہ بر ملا نام لیتے رہے اور انہیں دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں مداخلت اور دھاندلی کا ذمہ دار قرار دیتے رہے۔جبکہ اس سے قبل بھی جب دو مرتبہ نواز شریف کو اقتدار میں علیحدہ کیا گیا تھا تو بھی انہوں نے پوری فوج پر نہیں بلکہ ملکی سیاست میں ملوث ملٹری افسران پر ہی تنقید کی جبکہ عمران خان اور ان کے تھنک ٹینک نے فوج کے اندر تقسیم پیدا کرنے کی کھلی کوشش کی جسے سازش کہنا بے جا نہ ہو گا۔
عقل کے بغیر نواز شریف کی نقل کا انجام یہی ہونا تھا۔اطلاعات کے مطابق چند ہی دنوں بعد کا خان صاحب کا پسینہ پونجھنے والا بھی کوئی نہیں ہو گا۔
اب خان صاحب اپنے سابق سہولت کار سابق جنرل باجوہ کو ایکس ٹنشن دینے پر معافیاں مانگ رہے ہیں جبکہ انہیں معافی مانگنی 2011 سے شروع کرنا ہو گی جب وہ مینارِپاکستان پراسٹیبلشمنٹ کےکندھوں پر چڑھ کر جلسہ کرنے آئے تھے۔ انہیں 2014 کے اسپانسرڈ دھرنوں کی معافی مانگنا ہو گی،انہیں نوازشریف کےخلاف سازش کرنے کی معافی مانگنا ہو گی،انہیں جمہوریت کونقصان کی معافی مانگنا ہو گی،خان صاحب کو ملک کوتباہی کےکنارےلانے ، عوام کوگمراہ کرنے اوراداروں پرحملوں کی معافی مانگنا ہو گی،انہیں کشمیر کا سودا کرنے اور ملک کو ڈیفالٹ تک پہنچانے کی بھی معافی مانگنا ہو گی۔
انہیں معاف کیا جاا ہے یا نہیں یہ سوال انہیں اس ملک پر مسلط کرنے والوں اور عوام پر ہے۔
بقول بلال غوری ،کپتان کی خواہش تھی کہ ہر طرف ایک ہی تصویر اور ایک ہی نام ہو۔؟وہ برگد کا ایسا درخت بننا چاہتے تھے جس کے سائے تلے کوئی اور پودا نشوونما نہ پاسکے۔ ان کی دیرینہ آرزوتھی کہ اس ملک میں صدارتی نظام رائج ہو ،ایک ہی شخص کے نام پر ووٹ ڈالے جائیں اور وہ اپنی مرضی سے تمام فیصلے کرسکے۔مگر وقت کو کچھ اور ہی منظور تھا کیونکہ انسان سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے۔
واپس کریں