دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ہار ڈالنے کا سیزن ۔ سردار اعجاز خلیق خان
No image منزل کو ابھی سال باقی مگر گلے میں جشن کے ہار۔سیاسی دنیا کے تجربہ کار کھلاڑی بخوبی جانتے ہیں کہ اصل فیصلے اور اصل فائدے ہمیشہ الیکشن کے قریب ہی ہوتے ہیں۔ سال بھر پہلے ڈالے گئے ہار اکثر الماریوں کی دھول چاٹتے رہ جاتے ہیں، یا پھر قربانی کے موقع پر بکرے، دنبے اور اونٹ کے گلے میں فخر سے لٹکا کر یادگار بنا دیے جاتے ہیں۔
اب عوام بھی وہ نہیں رہی جو کبھی ہوا کرتی تھی۔ پہلے سیاستدان وعدوں اور نعروں سے عوام کو بہلا کر بیوقوف بناتے تھے، مگر اب عوام نے یہ فن انہی پر آزمانا شروع کر دیا ہے۔ جو بھی سیاستدان ہار لے کر آتا ہے، عوام پورے اہتمام کے ساتھ وہ ہار گلے میں ڈال دیتی ہے، مسکراتی ہے، کیمروں کے فلیش میں تصویریں بنواتی ہے… لیکن ووٹ کا فیصلہ دل کے کسی بند کمرے میں محفوظ رکھتی ہے۔ یوں سیاستدان خوش فہمی میں محو رہتے ہیں اور عوام اپنے پتے سینے سے لگائے رکھتی ہے۔
ووٹنگ والے دن جب گنتی شروع ہوتی ہے تو ہار ڈالنے والے یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ جنہیں ہار ڈالے تھے وہ تو مخالف کیمپ میں چائے کی چسکیاں لے رہے ہیں، اور ہار ایک کونے میں اکیلا لٹکا اپنے انجام پر ماتم کر رہا ہوتا ہے۔
فی الحال تو قافلے نکل رہے ہیں، ہاروں کی خوشبو فضا میں پھیلی ہے، چہروں پر مسکراہٹیں چمک رہی ہیں اور ہر پارٹی یہ سمجھ بیٹھی ہے کہ یہ ہار سیدھا ووٹ میں بدلے گا۔ مگر سیاست میں ہار ڈالنا آسان ہے، اصل امتحان یہ ہے کہ وہ ہار ووٹ میں بدل بھی سکے۔ اور یاد رکھیں… ہار ڈالنے والا ہاتھ اور ووٹ ڈالنے والا ہاتھ اکثر ایک نہیں ہوتا، اور آج کی عوام اس فن میں کمال مہارت حاصل کر چکی ہے۔
سیاست میں ہار ڈال دینا اصل کام نہیں، اصل امتحان تو اس اعتماد کو جیتنا ہے جو ووٹ میں بدلتا ہے۔ کیونکہ ہار وقتی خوشی دیتا ہے، مگر ووٹ وہ امانت ہے جو عوام صرف اس کے ہاتھ میں رکھتی ہے جس پر انہیں بھروسہ ہو… اور بھروسہ ہار سے نہیں، کردار سے جیتا جاتا ہے۔
واپس کریں