دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ایک خاتون نے اپنی وراثتی کیس کے فیصلے کے لیے 71 سال انتظار کیا۔جسٹس صلاح الدین پنہور
No image عمرکوٹ: سپریم کورٹ کے جسٹس صلاح الدین پنہور نے ملک کے عدالتی نظام اور اداروں میں خامیوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بددیانت ججوں، وکلا اور پولیس افسران کو تنقید کا نشانہ بنایا جو عوام کو انصاف کی فراہمی میں تاخیر اور رکاوٹ کے ذمہ دار ہیں۔وہ عمرکوٹ بار ایسوسی ایشن کی حلف برداری کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
انھوں نے کہا کہ مشہور مقولہ ’’انصاف میں تاخیر، انصاف سے انکار ہے‘‘ بالکل درست ہے، اور واضح کیا کہ جو عدالت انصاف فراہم نہ کرے اس کا کوئی مقصد باقی نہیں رہتا۔ انہوں نے ایسے مقدمات کی مثالیں دیں جہاں انصاف دہائیوں تک مؤخر رہا: ’’ایک خاتون نے اپنی وراثتی کیس کے فیصلے کے لیے 71 سال انتظار کیا، اور ایک شخص کے ٹریفک حادثے سے متعلق کیس کا فیصلہ 24 سال بعد آیا‘‘۔
انہوں نے جاگیرداروں اور بیوروکریٹس کے اثر و رسوخ کی مذمت کی اور کہا کہ کچھ جج طاقتوروں کو خوش کرنے کے لیے اپنی دیانت داری پر سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔
جسٹس پنہور نے کہا کہ ججوں کو بہادری کے ساتھ کام کرنا چاہیے، خوف کے بغیر، اور خبردار کیا کہ حلف سے غداری عوامی اعتماد کو تباہ کر دیتی ہے۔
انہوں نے بدعنوانی کی مثال دیتے ہوئے صحافی نصراللہ گدانی کے قتل کے کیس کا ذکر کیا اور کہا کہ تین بار ایسوسی ایشنز کے وکلا، پولیس اور حتیٰ کہ کچھ ججوں نے بھی ملزمان کا دفاع کیا۔
انہوں نے غریبوں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ڈسپوزیشن ایکٹ کے غلط استعمال پر بھی تنقید کی، اور کہا کہ اب اسے انہی کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (SBCA) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں وہاں انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا: ’’ہم کس کے جج ہیں… عوام کے یا اشرافیہ کے؟‘‘
جسٹس پنہور نے معاشرتی منافقت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں لوگ نیک بننے کا دکھاوا کرتے ہیں مگر عمل اس کے برعکس ہوتا ہے۔ انہوں نے ججوں پر زور دیا کہ وہ براہِ راست عوام سے جڑیں، اور کہا: ’’ہمیں خود کو الگ کرنا بند کرنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ لوگ کس طرح زندگی گزار رہے ہیں‘‘۔ اپنے جذبات شیئر کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’’کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہم جج ہیں یا ڈاکو‘‘۔
انہوں نے اس بات پر افسوس کیا کہ ایسی خواتین اور لڑکیوں کے لیے پناہ گاہیں موجود نہیں جو ناانصافی کا شکار ہیں، اور کہا کہ اس طبقے کو تعلیم اور وراثت کے حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے، خاص طور پر پسماندہ برادریوں جیسے شیڈول کاسٹ میں۔
عدالتی نظام کی ناکامی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے میرپور خاص کی عدالتوں کی مثال دی جنہوں نے ایک ہفتے میں 320 میں سے 319 مقدمات ’’نمٹا دیے‘‘ اور کہا کہ یہ ’’ایک رسمی کارروائی‘‘ تھی، انصاف نہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ پولیس کیسے انصاف دے سکتی ہے۔
جسٹس پنہور نے کہا کہ بالائی سندھ کا ’’ڈاکو کلچر‘‘ اور زیریں سندھ کی ’’منشیات کی وبا‘‘، خاص طور پر عمرکوٹ میں، نظام کو مفلوج کر چکی ہے۔انہوں نے انکشاف کیا کہ سکھر کے ایک ایس ایس پی نے اعتراف کیا کہ وہ جرائم پر قابو پانے میں بے بس ہیں، جس پر میں نے کہا: ’’اگر ہم کچھ نہیں کر سکتے تو استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں‘‘۔
انہوں نے کہا کہ عمرکوٹ پولیس جرائم پر قابو پانے کے بجائے بھتہ خوری پر توجہ دے رہی ہے۔ ’’ایک سابق سیشن جج کے دور میں جرائم میں اضافہ ہوا‘‘، انہوں نے افسوس کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی ایکٹ کسانوں اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنایا گیا تھا، ہاؤسنگ اسکیمیں بنانے کے لیے نہیں۔ اس کا مقصد محنت کش طبقے کو قرضے فراہم کرنا اور اجتماعی پلیٹ فارمز کے ذریعے انہیں بااختیار بنانا تھا۔
جسٹس پنہور نے انتباہ کیا: ’’ہمارے حکمران جھوٹ بولتے ہیں، ہمارے ادارے جھوٹ بولتے ہیں اور لوگ بھی سچ بولنا چھوڑ چکے ہیں۔ اگر ہم نے خود کو نہ بدلا تو نظام تباہ ہو جائے گا‘‘۔
سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس جان علی جونیجو، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تھرپارکر عبد الوحید شیخ، سیشن جج عمرکوٹ عبد القدوس میمن، ایڈووکیٹ یوسف لغاری، میر پرویز تالپور، صدر سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (میرپور خاص) اور سندھ بار کونسل کے اراکین نند کمار گوکلانی اور شیر محمد وسن سمیت دیگر اہم شخصیات نے تقریب میں شرکت کی۔
واپس کریں