
وزیر اعلی خیبر پختون خواہ علی امین گنڈاپور نے بیان داغا ہے کہ فارم 47 کی مانگے تانگے کی حکومت ہم پر مسلط کی گئی ہے اورپاکستان میں آئین وقانون نام کی چیز نہیں رہی۔موصوف کے مذکورہ بیان میں کس حد تک سچائی ہے اس سے قطع نظر پہلے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ان کی سابقہ مرکزی حکومت کو پاکستانی عوام پر کیسے مسلط کیا گیا تھا۔
2018 کے پاکستان کے عام انتخابات میں میگا دھاندلی کے الزامات متعدد سیاسی جماعتوں ، قومی اور عالمی سیاسی مبصرین اور عالمی میڈیا کی جانب سے لگائے گئے۔ پہلے سے انتخابی دھاندلی (Pre-Poll Manipulation)
انتخابات سے پہلے، نمایاں میڈیا ہاؤسز جیسے کہ ڈان اور جیو نیوز پر شدید پابندیاں عائد کی گئیں۔ ان پر اس وقت کی فوجی اشٹبلشمنٹ کے دباؤ کے تحت رپورٹنگ کو محدود کیا گیا، پی ایم ایل ن کی قیادت اور فوج کے درمیان اختلافات کو اجاگر کیا گیا۔ ڈان اخبار کی فروخت پر بعض علاقوں میں پابندی لگائی گئی اور جیو ٹی وی کو کیبل آپریٹرز نے بند کر دیا۔ کئی صحافیوں کو ہراساں کیا گیا، ان سے پوچھ گچھ کی گئی اور بعض کو گرفتار کیا گیا، جس سے ملک میں سنسرشپ کا ماحول پیدا ہوا۔
انتخابات سے تین ماہ قبل سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو بدعنوانی کے بے بنیاد الزامات پر نااہل قرار دیا، جسے سیاسی قتل کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ یہ فیصلہ اس وقت کی فوجی اشٹبلشمنٹ سے منسلک سمجھا گیا۔
انتخابات سے قبل قانون اور آئین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے خلاف تقریباً 17,000 مقدمات درج کیے گئے اور سینکڑوں پارٹی کارکنوں بلا وجہ کو حراست میں لیا گیا جس سے ان کی انتخابی مہم متاثر ہوئی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے متعارف کرایا گیا آر ٹی ایس، جو ووٹوں کے نتائج کو تیزی سے منتقل کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، انتخابات کے دن پر اسرار طور پر ناکام ہو گیا۔ اس سے نتائج کے اعلان میں غیر معمولی تاخیر ہوئی، خاص طور پر کراچی جیسے بڑے شہروں میں، جس سے دھاندلی کے شبہات کو تقویت ملی۔
کئی حلقوں میں مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد غیر معمولی طور پر زیادہ تھی اور بعض جگہوں پر یہ تعداد جیت کے مارجن سے بھی زیادہ تھی۔ سیاسی مبصرین نے ان نتائج پر سوال اٹھائے۔
کراچی اور سیالکوٹ میں خالی بیلٹ بکس اور ووٹنگ پیپرز سڑکوں پر پائے گئے، جس سے ووٹوں کی گنتی کے عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھے۔ عالمی میڈیا نے بھی ان واقعات کو دھاندلی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔
عام انتخابات کے بعد، پاکستان تحریک انصاف کو حکومت بنانے کے لیے آزاد امیدواروں اور چھوٹی جماعتوں کو اپنی طرف ملانے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ اس عمل کو بھی باجوہ اشٹبلشمنٹ کی حمایت سے جوڑا گیا، جس سے الزام ثابت ہوا کہ مسلم لیگ ن سے حکومت جیت چھینی گئی۔
مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے ان انتخابات کے نتائج کو "صریح دھاندلی" قرار دیتے ہوئے مسترد کیا۔ ن لیگ نے 38 حلقوں میں دھاندلی کے ثبوت اکٹھے کرنے کا دعویٰ کیا اور لاہور ہائی کورٹ میں اسے چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔
قومی اور عالمی میڈیا اور سیاسی مبصرین نے اس وقت کی باجوہ رجیم پر الزام لگایا کہ اس نے انتخابی عمل میں مداخلت کی اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو جتوانے کے لیے "سیلیکشن" کا عمل کیا۔ یورپی یونین کے الیکشن آبزرویشن مشن نے بھی رپورٹ کیا کہ انتخابی ماحول میں "آزادی اظہار پر پابندیوں" اور "امیدواروں کو برابر مواقع نہ ملنے" کی وجہ سے شفافیت متاثر ہوئی جبکہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے انتخابات کو ملکی تاریخ کے "سب سے گندے اور سب سے زیادہ مائیکرو مینجڈ" انتخابات قرار دیا۔
2018 کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کو ہرانے کے لیے دھاندلی کے ثابت شدہ الزامات بنیادی طور پر اس وقت کی فوجی اشٹبلشمنٹ کی کھلی مداخلت، میڈیا پر پابندیوں، نواز شریف کی نااہلی، آر ٹی ایس کی ناکامی اور مسترد شدہ ووٹوں کی زیادہ تعداد پر مبنی ہیں۔
واپس کریں