
مطلق العنان پروپیگنڈے کا مقصد سچ بولنا نہیں بلکہ حقیقت کو ایک طاقتور افسانے میں بدلنا ہے۔ پاکستانی تناظر میں، ہم سب نے عمران خان کے بیانیہ کو یو ٹرن کے بعد یو ٹرن لیتے ہوئے دیکھا ہے، جس کے نتیجے میں لاکھوں نوجوان ایک جذباتی سفر کے مسافر بن گئے جن کا یہ ماننا ہے کہ ان کے لیڈر کی بالادستی کے علاوہ کوئی چیز اہمیت نہیں رکھتی اور ان کا لیڈرہر چیز اور ہر چیز سے بالاتر ہے۔
بیلجیئم کے معروف ماہر نفسیات Mattias Desmet کا کہنا ہے کہ جب لوگ چار چیزوں سے گزرتے ہیں تنہائی، کم سمجھ، پریشانی اور مایوسی تو وہ ذہنی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں۔ اس حالت میں وہ لوگ ایک جھوٹی لیکن طاقتور کہانی کے جادو کی زد میں چلے جاتے ہیں۔ وہ تعلق اور سمت کے احساس کے بدلے اپنے لیے سوچنا چھوڑ دیتے ہیں۔
دو ہزار اٹھارہ سے قبل پوری پلاننگ کے زریئے پاکستان میں مایوسی، نوجوانوں کی بے روزگاری، مہنگائی اور خوف و ہراس کا ماحول بنایا گیا جس کے بعد عام لوگ بھی کسی بہتری کی امید کی تلاش میں محو ہو گئے ۔ یکا یک ایک نام نہاد لیڈرنے افسانوی کہانی کے ساتھ نوجوانوں کے جذباتی خلا میں قدم رکھا اور پھر اس کے بعد ان نوجوانوں کے نعرے پالیسی اہداف نہیں رہے بلکہ جذباتی کالیں تھیں جنہوں نے انہیں لانگ مارچوں اور دھرنوں میں متحد کیا جہاں دن رات ناچ گانا چلتا رہا جس سے نوجوان متاثر ہوتے رہے نتیجہ یہ نکلا کہ قوم کے نو نہالوں اور نوجوانوں نے اس بات کی پرواہ کرنا چھوڑ دیا کہ سچ اور جھوٹ کیا ہے بلکہ اہم یہ ہوا کہ ان کے لیڈر کی جذباتی اور افسانوی کہانی کو حرف بہ حرف سچ تسلیم کر لیا گیا۔
لیڈر کی ناکامی کے بعد اب پی ٹی آئی کے حامی اپنے لیڈر کے اسکینڈلز، عدالتی مقدمات اور حکمرانی کی ناکامیوں کو اس لیے نظر انداز کرتے ہیں کہ وہ صرف ایک سیاستدان کی پیروی نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ اپنے جذبات کا دفاع کر رہے ہیں۔ان کا لیڈر ان کے وقار اور قومی فخر کی علامت بن گیا ہے اور اس پر کوئی بھی تنقید ذاتی حملے کی طرح محسوس ہوتی ہے۔مثلا جیسے وفاداری کو سچائی یا انصاف سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو کرپشن نعروں کے پیچھے چھپ جاتی ہے اور جمہوریت مقبولیت کے مقابلے میں بدل جاتی ہے۔
حقیقت تو یہی ہے کہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف ایک شخصیت کے گرد مرکوز ایک جذباتی گروپ بن چکی ہے جہاں لیڈر سے وفاداری نے پالیسی، حکمرانی اور بحث کی جگہ لے لی ہے اورپارٹی کے اندر سے ہونے والی تنقید کو بھی غداری سمجھا جاتا ہے۔
لیڈر کے جذباتی انحصار نے اس کے حامیوں کو بدعنوانی، بدانتظامی اور جمہوری زوال کی جانب اندھا کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کی سیاست افسانہ سازی میں تبدیل ہو گئی ہے، جہاں حقائق کی کوئی اہمیت نہیں رہی اور ناکامی کو سازش قرار دیا جاتا ہے۔
جب تک عمران خان کے حامی بدتمیزی کلچر اور جذباتی سیاست کے چکر سے آزاد نہیں ہوتے اور تنقیدی سوچ، ادارہ جاتی اعتماد اور احتساب کے بنیادی عناصر کی طرف واپس نہیں آتے، انہیں کسی سیاسی جماعت کا کارکن کوئی نہیں کہے گا ۔
واپس کریں