دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پانچ اگست: کشمیری شناخت کا خون آلود دن
No image از قلم: آمنہ اسحاق عباسی ۔پانچ اگست کا سورج جب بھی طلوع ہوتا ہے، کشمیری دلوں پر ایک پرانا زخم پھر سے ہرا ہو جاتا ہے — ایک ایسا زخم، جو نہ وقت بھر سکا، نہ الفاظ سہہ سکے۔ یہ دن محض ایک تاریخ نہیں، بلکہ ایک چیخ ہے جو ہر اس دل سے اٹھتی ہے جس نے اپنی شناخت پر پہرہ دیا، اپنے جھنڈے سے محبت کی، اور اپنی مٹی کو ماں کہا۔ پانچ اگست 2019 کو بھارت نے نہ صرف آئین کی شقیں بدلی تھیں، بلکہ ایک پوری قوم کی تاریخ، ثقافت، اور خودداری کو کچلنے کی کوشش کی تھی۔ آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی، کشمیریوں کے وجود پر ایسا وار تھی، جو صرف زمین نہیں چھیننا چاہتا تھا، بلکہ ان کی پہچان، امید، اور مزاحمت بھی دفن کرنا چاہتا تھا۔ مگر بھارت یہ بھول گیا کہ کشمیری صرف ایک قوم نہیں، ایک مسلسل صدائے احتجاج ہیں — جو کرفیو میں بھی گونجتی ہے، اور خاموشی میں بھی سنائی دیتی ہے۔ پانچ اگست ہمیں توڑ نہ سکا، بلکہ جگا گیا۔ اس دن نے ہمیں یاد دلایا کہ تاریخ ہمیشہ ظالموں کے فیصلے نہیں لکھتی — کبھی کبھی مظلوموں کی خاموشی بھی عہد بن جاتی ہے۔
آرٹیکل 370 اور 35A کیا تھے؟آرٹیکل 370 بھارتی آئین کی وہ شق تھی جو ریاست جموں و کشمیر کو ایک خصوصی خودمختار حیثیت دیتی تھی۔ جب 1947 میں بھارت نے جبری الحاق کا یکطرفہ دعویٰ کیا، تو اس کے بدلے میں ریاست جموں و کشمیر کو آرٹیکل 370 کے تحت یہ "ضمانت" دی گئی کہ ریاست کا آئندہ آئینی ڈھانچہ خود کشمیری عوام کی مرضی سے طے ہو گا۔ اس شق کے مطابق:
ریاست جموں و کشمیر کا اپنا آئین ہو گا۔صرف دفاع، خارجہ امور اور کرنسی بھارت کے دائرہ کار میں آئیں گے۔بھارتی قوانین ریاست پر تب ہی لاگو ہوں گے جب کشمیری اسمبلی اس کی منظوری دے۔
جبکہ آرٹیکل 35A ، جسے 1954 میں صدارتی حکم کے ذریعے آئین کا حصہ بنایا گیا، کشمیریوں کو مقامی شہری ہونے کے خاص حقوق دیتا تھا:صرف کشمیری شہری ہی ریاست میں زمین خرید سکتے تھے۔سرکاری ملازمتیں صرف مقامی افراد کے لیے مخصوص تھیں۔غیر کشمیری یہاں آ کر مستقل آباد نہیں ہو سکتے تھے۔یہ قوانین کشمیری شناخت، ثقافت اور demography (آبادی کے تناسب) کو بچانے کے لیے تھے۔
بھارت نے ان شقوں کو کیوں ختم کیا؟بھارت کو ہمیشہ سے کشمیریوں کی الگ شناخت، الگ جھنڈا، الگ آئین، اور خودمختاری ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ جب نریندر مودی کی حکومت نے دوسری بار اقتدار سنبھالا، تو ان کے ایجنڈے میں سب سے پہلا نشانہ مسلمانوں کی خودمختار ریاست تھی – اور وہ تھی جموں و کشمیر۔
5 اگست 2019 کو:بھارتی حکومت نے ایک صدارتی حکم کے ذریعے آرٹیکل 370 اور 35A منسوخ کر دیے۔مقبوضہ جموں وکشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے یونین ٹیریٹریز بنا دیا گیا: لداخ اور جموں و کشمیر۔
ریاست کی اسمبلی کو معطل کر دیا گیا۔لاکھوں بھارتی فوجی تعینات کر کے کرفیو لگا دیا گیا۔انٹرنیٹ، ٹیلیفون اور میڈیا پر مکمل پابندی لگا دی گئی۔یہ سب کچھ کشمیری عوام کی مرضی کے بغیر، اور ریاستی اسمبلی کی منظوری کے بغیر ہوا، جو کہ بھارتی آئین کی خلاف ورزی تھی۔
کیا 370 واقعی ایک "رکاوٹ" تھی؟بھارتی پروپیگنڈہ یہ کہتا ہے کہ آرٹیکل 370 ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ:ریاست جموں و کشمیر کا شرحِ خواندگی 75% سے زائد ہے۔ریاست میں تعلیمی ادارے، اسپتال اور یونیورسٹیاں پورے بھارت سے بہتر تھیں۔جرائم کی شرح باقی ریاستوں سے کم تھی۔اصل وجہ ترقی نہیں بلکہ کشمیریوں کی "اسلامی شناخت" تھی۔ بھارت ریاست جموں و کشمیر کو ہندو اکثریتی ریاست میں بدلنا چاہتا ہے، تاکہ مستقبل میں اگر اقوامِ متحدہ کا ریفرنڈم ہوا تو نتیجہ ان کے حق میں آئے۔
پانچ اگست کے بعد کیا ہوا؟اس فیصلے کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں:ہزاروں نوجوانوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالا گیا۔خواتین پر جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا
میڈیا کو مکمل طور پر خاموش کر دیا گیا۔ مظلوم کشمیریوں کو ہر سطح پر دبانے کی کوشش کی گئی۔ریاستی اسمبلی، مقامی قوانین، جھنڈا، شناختی کارڈ – سب کچھ بدل کر بھارت نے واضح پیغام دیا: "اب تم ہمارے غلام ہو!"
لیکن کشمیری غلامی پر راضی نہیں۔ ان کی خاموشی رضامندی نہیں بلکہ ظلم کے خلاف ایک "پُرامن چیخ" ہے، جو دنیا تک پہنچنا باقی ہے۔
عالمی ردعمل اور مسلم دنیا کی خاموشی
5 اگست کے بعد دنیا کی آنکھیں کچھ دیر کو کھلیں، مگر پھر وہی خاموشی۔ اقوامِ متحدہ نے تشویش تو ظاہر کی، مگر کوئی عملی قدم نہ اٹھایا۔
او آئی سی اور مسلم دنیا کی خاموشی نے بھی کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا۔ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی قیمت پر کشمیری خون بیچ دیا گیا۔
ہم آزاد ہیں، لیکن خاموش کیوں؟ہم جو آزاد کشمیر میں رہتے ہیں، ہمیں سوچنا ہو گا کہ کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ اگر ہم مقبوضہ جموں و کشمیر کے لیے آواز بلند نہیں کرتے، اگر ہم پانچ اگست کو محض ایک سوشل میڈیا پوسٹ تک محدود رکھتے ہیں، تو ہم بھی اس جرم میں شریک ہیں۔
ہمارا خاموش رہنا ہمارے بہن بھائیوں کی قربانیوں کی توہین ہے۔ پانچ اگست ایک سیاہ دن ہی نہیں، بلکہ ایک لمحہ فکریہ بھی ہے، کہ ہم کب تک اپنے حصے کا حق ادا نہیں کریں گے؟
بھارت کو کیا ملا؟ بھارت سمجھتا ہے کہ وہ کشمیری شناخت کو مٹا سکتا ہے۔ مگر بھارت کو جان لینا چاہیے:کشمیری زمین چھینی جا سکتی ہے، دل نہیں۔ شناخت کو کاغذوں سے مٹایا جا سکتا ہے، تاریخ سے نہیں
آواز کو دبایا جا سکتا ہے، ختم نہیں۔5 اگست کو بھارت نے صرف ایک قانون نہیں بدلا، اس نے ایک قوم کو جگا دیا۔ہمیں چاہیے کہ:5 اگست کو ہر سال یومِ سیاہ کے طور پر منائیں۔
کشمیری مظلوموں کی آواز بنیں – تحریر، تقریر، سوشل میڈیا، ہر پلیٹ فارم پر۔ نوجوان نسل کو آرٹیکل 370 اور 35A کی اہمیت بتائیں۔ دنیا کو کشمیر کا اصل چہرہ دکھائیں – خون، آنسو، اور قربانی۔پانچ اگست وہ دن ہے جب بھارت نے ہمیں ختم کرنے کی کوشش کی، لیکن اس دن سے ہم نے جینا سیکھا۔ جینا صرف اپنی شناخت کے لیے، اپنے حق کے لیے، اپنے شہیدوں کے خون کے لیے۔
کشمیریوں کی تحریک کوئی جغرافیائی تنازعہ نہیں، بلکہ ایک قوم کی آزادی کا مقدمہ ہے، جو ابھی مکمل ہونا باقی ہے۔ہم ہر پانچ اگست کو یہ عہد کرتے ہیں: جب تک ایک بھی کشمیری زندہ ہے، تم ہماری شناخت نہیں مٹا سکتے ۔
واپس کریں