
اپنے سیاسی مخالفین کو زاتی انتقام کا نشانہ بنانے کے عمل کا آغاز عمران خان نے اپنے دور حکمرانی سے شروع کیا تھا اور اپنے اس عمل پر انہیں فخر بھی تھا۔نواز شریف،ان کی مرحوم اہلیہ اور ان کی بیٹی مریم نواز سے لے کر ن لیگ کے دیگر مرکزی لیڈران، عام ن لیگی ورکر اور مسلم لیگ ن کی حمایت میں لکھنے اور بولنے والے صحافیوں کو بھی عمران خان نے اپنے دور حکومت میں زاتی انتقام کی بھینٹ چڑھایا۔
نیب کے ذریعے ن لیگ کے رہنماؤں کے خلاف متعدد مقدمات دائر کیے گئے۔ وزیراعظم نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، اور دیگر اہم ن لیگی رہنماؤں کے خلاف کرپشن، منی لانڈرنگ، اور اثاثہ جات سے متعلق بے بنیاد مقدمات بنائے گئے۔ واضع رہے شہباز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف برطانیہ میں منی لانڈرنگ کے الزامات کو ن لیگ نے بے بنیاد قرار دیا تھا جسے بعد میں برطانوی عدالتوں سے ان کی بریت نے اس دعوے کو تقویت دی۔
نواز شریف کو 2017 میں پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نااہل قرار دیا گیا تھا، لیکن عمران خان کی حکومت کے دور میں انہیں العزیزیہ کیس میں سزا سنائی گئی اور اٹک جیل میں قید کیا گیا۔
مریم نواز کو بھی متعدد مقدمات کا سامنا کرنا پڑا، جن میں چوہدری شوگر ملز کیس اور دیگر مالی بدعنوانیوں کے الزامات شامل تھے جو بعد میں جھوٹے اور سیاسی محرکات پر مبنی ثابت ہوئے۔ ن لیگ کی درجہ اول اور درجہ دوئم کی قیادت کو ''بدترین سیاسی انتقام'' کا نشانہ بنایا گیا۔ مریم نواز کو عمران خان کے دور میں ''سزائے موت کی چکیوں '' میں رکھا گیا۔
عمران خان کی حکومت نے ن لیگی لیڈران کے خلاف گرفتاریوں اور ہراسانی کا سلسلہ جاری رکھا لیکن ان کے خلاف بنائے گئے مقدمات کے نتائج کبھی منطقی انجام تک نہ پہنچے، جو اس بات کا ثبوت تھا وہ صرف سیاسی دباؤ ڈالنے کے لیے تھے۔
عمران خان نے اپنے دور میں ن لیگ کے رہنماؤں کو ''چور'' اور ''ڈاکو'' جیسے القابات سے مسلسل مخاطب کیا، جس سے ایک پر امن سیاسی کلچر میں نفرت اور تناؤ میں اضافہ ہوا۔ عمران خان کی حکومت نے ایک نیب ترمیمی بل کا مسودہ بھی تیار کیا تھا، جس کے تحت بڑی تعداد میں سیاستدانوں (بلخصوص مسلم لیگ ن) کو نااہل کرنے کی منصوبہ بندی تھی۔
آج اپنے خلاف ہونے والی قانونی کاروائیوں کو فرعونیت قرار دینے والے محترم خان صاحب سے کوئی پوچھے کہ برطانیہ کے ایک ہسپتال میں بستر مرگ پر پڑی ہوئی، جیل میں ناحق قید نواز شریف کی اہلیہ سے فون پر بات اس لیئے نہیں کروائی گئی تھی کیونکہ نواز شریف کو عمران خان کے دور حکومت میں جیل انتظامیہ نے عمران خان کے حکم پر مرحومہ کلثوم نواز سے فون پر بات کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔
فرعونیت عمران خان کے دور میں تھی یا اب نواز شریف کی بیٹی کے دور میں ہے جب عمران خان کو جیل میں تمام تر سہولیات میسر ہیں۔
واپس کریں