دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
فوج آخر کیا کرے؟خالد خان
No image یہ ایک فیشن بن چکا ہے کہ اگر کہنے کو کچھ نہ ہو تو فوج کو گالی دے دو۔ اگر کسی پر الزام لگانے کا دل کرے تو ساری گندگی کی ٹوکری فوج پر انڈیل دو۔ میں یہ نہیں کہتا کہ فوج دودھ کی دھلی ہوئی ہے، لیکن جب آپ ایکشن میں ہوں، چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرے ہوں، اور اپنوں کے ہاتھوں غیر سے زیادہ زخم کھا رہے ہوں تو غلطیوں کا امکان سو فیصد موجود ہوتا ہے۔
اگر کوئی زیادتی فوج سے سرزد ہوئی ہے تو کیا وہ ارادتاً کی گئی؟
کیا وہ ایک اضطراری عمل تھا؟
کیا وہ انسانی غلطی کے زمرے میں آتی ہے؟
کیا ادارہ اس غلطی کو تسلیم کرتا ہے؟
کیا فوج اس پر نادم ہے؟
کیا محکمہ جاتی طریقہ کار کے مطابق اس پر کارروائی کی گئی؟
کیا قوم کو اعتماد میں لیا گیا؟
اب آئیے دوسری طرف —
باجوڑ، افغانستان کے ساتھ طویل سرحد رکھتا ہے۔ وہاں سے دراندازیاں ہو رہی ہیں، اور متعدد ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ باجوڑ میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ مولانا خان زیب کی حالیہ شہادت اس کی بڑی مثال ہے۔
جب بھی باجوڑ میں دہشت گردی ہوتی ہے، فوج کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ اور جب فوج دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے، تب بھی وہ تنقید کی زد میں آتی ہے۔ تو پھر فوج آخر کرے بھی تو کیا؟
باجوڑ کے عوام نے اکثریتی طور پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کو منتخب کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے باجوڑ آپریشن کی منظوری دی ہے، اگرچہ ایک روز قبل ان کا مؤقف کچھ اور تھا۔ ضلعی انتظامیہ، پولیس فورس اور صوبائی ادارے سب موجود ہیں۔ تو پھر یہ امن کیوں قائم نہیں کر سکتے؟ اسسٹنٹ کمشنر جیسے اہم عہدے دار دہشت گردی کا نشانہ کیوں بنتے ہیں؟
جب آپ کے منتخب نمائندے، مقامی عمائدین اور ضلعی ادارے ناکام ہوں، اور عام لوگ امن مارچ کرنے پر مجبور ہوں، تو کیا ایسے میں فوج کو خاموش رہنا چاہیے؟ یا عملی اقدام اٹھانا چاہیے؟
اگر فوج آپریشن سے قبل عارضی نقل مکانی کے لیے کیمپس قائم کرنے کا کہے تو گویا کفر کر دیا۔ اور جب حالت جنگ میں شہری نقصان ہو جائے تو پھر بھی صرف فوج ہی کو مجرم ٹھہرایا جائے؟
کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ باجوڑ کے عام لوگ مختلف دہشت گرد تنظیموں میں شامل رہے ہیں؟
کیا دہشت گرد تنظیموں کے کئی مرکزی کمانڈر اور امراء کا تعلق باجوڑ سے نہیں رہا؟
کیا وہاں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے اور سہولت کار موجود نہیں؟
کیا دہشت گرد معصوم لوگوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال نہیں کرتے؟
کیا وہ گھروں میں گھس کر سیکیورٹی فورسز پر حملے نہیں کرتے؟
کیا چند روز پہلے افغانستان سے آنے والے دہشت گرد گروہوں کا باقاعدہ استقبال باجوڑ کے مقامی لوگوں نے نہیں کیا؟
سوشل میڈیا پر ان تمام واقعات کے ثبوت موجود ہیں۔
اب آتے ہیں اس الزام کی طرف جو خلوتوں میں خوب لگایا جاتا ہے، مگر پبلک فورمز پر سب کی بولتی بند ہو جاتی ہے —
یہ الزام کہ "دہشت گرد پاک فوج کی بی ٹیم یا پراکسی ہیں۔"
آئیے، اس الزام کے ٹھوس اور ناقابلِ تردید شواہد پیش کیجیے۔ ملکی اور بین الاقوامی عدالتوں میں جائیے۔ عالمی میڈیا میں اسے اجاگر کیجیے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے سامنے رکھیے۔ وہ تمام سیاسی رہنما جو یہ سمجھتے ہیں، سب فوجی قیادت کے ساتھ بیٹھیں۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں۔ مرد بن کر اپنا مؤقف میز پر رکھیں۔
بے ہودہ، بے سروپا اور بے بنیاد الزامات کا آخر حاصل کیا ہے؟
کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ اسلام کے نام پر پختونوں کے لشکر تیار کیے گئے؟
کیا مساجد اور مدارس یہی کام نہیں کرتے رہے؟
کیا تربیتی مراکز نہیں چلائے گئے؟
کیا کوہ قاف کے جنات سیکیورٹی اداروں سے لڑ رہے ہیں یا پشتون نوجوان؟
کیا یہ سب ہندوستان، اسرائیل، اور دیگر پاکستان دشمن قوتوں کے اجرتی کارندے اور قاتل نہیں ہیں؟
یاد رکھیے:
سچ کا سامنا کیجیے۔
سچ کو جاننا سیکھیں۔
دلیل کے ساتھ بات کریں۔
سیاسی جماعتوں کی اندھی تقلید سے نکل کر پاکستانی بنیں۔
اپنے لیڈروں سے سوال کرنے کی جرأت پیدا کریں۔
میدان کا مرد بن کر ریاست اور فوج کی غلطیوں کی نشاندہی کریں۔
یاد رکھیے، میرے پشتون بہادر بھائیو — خون کے آنسو رونا پڑیں گے، لیکن تب وقت گزر چکا ہو گا۔
افغانستان سے سبق حاصل کیجیے۔
حقائق کو بڑھا چڑھا کر پیش نہ کیجیے۔
سچ بولیں، سچ پر قائم رہیں۔
ریاست کے ساتھ کھڑے ہونے میں ہم سب کی بقا ہے۔
واپس کریں