بلاسفیمی بزنس کیس: کمشن معطل ہوگیا۔ کس نے کہا۔؟فرنود عالم

صاف نظر آرہا تھا کہ بزنس گروپ عدالت کے باہر انتہا پسندوں کی فیلڈنگ لگا کر خود اپیل میں چلا جائے گا۔ عدالت سے درخواست کرے گا کہ کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا جائے۔
یہ عدالت پہنچ گئے۔ کل جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس اعظم خان کی عدالت میں اس اپیل کو سنا گیا۔
متاثرہ خاندان کی طرف سے کمرہ عدالت میں صرف دو لوگ موجود تھے۔ ایک ایڈوکیٹ ہادی علی چٹھہ دوسرے بیرسٹر طلحہ۔
بزنس گروپ کی طرف سے کمرہ عدالت میں ساٹھ سے زیادہ وکلا کا ایک ہجوم موجود تھا۔ نعرے لگاتا ہوا ایک جتھہ عدالت کے مرکزی دروازے پر بھی کھڑا تھا۔
حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سیکیورٹی اہلکاروں نے متاثرہ خاندان کے افراد کو ان سے بہت دور پارکنگ کی طرف دھکیل دیا تھا۔
بزنس گروپ کی طرف سے ایڈوکیٹ کامران مرتضی صاحب پیش ہوئے اور ان کے ساتھ ایک فاتح کی طرح ایڈوکیٹ انتخاب بھی آگے آگے تھے۔
وہی ایڈوکیٹ انتخاب جو اٹھارہویں بار پوچھنے پر بھی جسٹس سردار اعجاز اسحق خان کو بتا نہیں پا رہے تھے کہ وہ آخر کہنا کیا چاہتے ہیں۔
لائیو سماعتوں میں آپ کئی بار یہ منظر دیکھ چکے ہیں کہ بزنس گروپ کا جو بھی وکیل آتا ہے، وہ پورس کے ہاتھی کی طرح اپنے ہی لشکر کو روند دیتا ہے۔ یہی منظر عدالت میں پھر سے دیکھا گیا۔
ایڈوکیٹ کامران مرتضی اپنی طبعیت اور مزاج کے مطابق دھیمے دھیمے انداز میں آرگیو کر رہے تھے۔ ناگہان بیچ میں جناب انتخاب کود پڑے۔
کہتے ہیں،
'کامران صاحب آپ میرے سینئیر ہیں، مگر مجھے ایک دو باتیں کہہ لینے دیں'
کامران صاحب یہ سوچ کر خاموش ہوگئے کہ انہوں نے کوئی قانونی نکتہ بیان کرنا ہے، مگر انتخاب صاحب نے اہنی روایت قائم رکھتے ہوئے روسٹرم کو پندار کا صنم کدہ بنا دیا۔ وہی تلقین، وہی خطبے وہی شکایتیں۔
ایک جگہ پہنچ کر بولے
'جسٹس سردار اعجاز تو اپنے اختیارات سے ہی آگے نکل گئے تھے، ہائیکورٹ کے اختیارات تو امریکا تک پہنچ گئے تھے'
دونوں جج صاحبان کا حوصلہ جواب دے گیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے جسٹس سردار اعجاز کا جواب دے گیا تھا۔ سچ پوچھیں تو سردار صاحب نے بہت گزارا کیا تھا۔
جج صاحب نے کہا:
انتخاب صاحب، آپ کی گفتگو مناسب نہیں ہے۔ یہ کارروائی ایسے نہیں چلے گی۔
ایڈوکیٹ کامران مرتضی نے پھر سے آرگیو شروع کر دیا۔ انہوں نے بمشکل اپنا ٹیمپو سیٹ کیا تھا کہ انتخاب جی پھر سے کود پڑے۔
جج صاحب نے اس بار بھی انہیں شٹ اپ کال دی اور کہا کہ کیا آپ نے یہ سب جسٹس سردار کی کورٹ میں کہا تھا؟
انہوں نے کہا جی جی بالکل کہا تھا۔
اس پر خود بزنس گروپ نے ہی انتخاب شاہ صاحب کو پکڑ کر پیچھے کھینچ لیا کہ کیوں مروا رہا ہے ہمیں بھائی۔
یہاں ایک اور وکیل عادل عزیز قاضی صاحب آگئے۔ اپنی سی قانونی راہ لیتے لیتے انہوں نے جسٹس اعظم خان کو شیشے میں اتارنے کے لیے ایک جذباتی واردات کی۔
فرمایا
جج صاحب، جن ملزمان کا ٹرائل چل رہا ہے، ان میں سے کئی ایک کو تو آپ بھی (سیشن کورٹس) میں سزائیں سنا چکے ہیں۔ ( آپ تو جانتے ہی ہیں پھر۔ کیوں جی۔)
ایڈوکیٹ صیب کا خیال تھا کہ یہاں لونڈا پگھل جائے گا۔ مگر جسٹس اعظم خان نے یہ سنتے ہی کہا،
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ میں آپ کی اپیل سننے کا اہل ہی نہیں ہوں۔ یوں تو مجھے پھر بینچ سے الگ ہوجانا چاہیے۔
یہ سن کر بزنس گروپ کے کچھ وکلا بغلیں جھانکنے لگے کچھ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے کہ یہ کس کی وکالت کر رہے ہیں۔؟
یہ وہ مقام ہے کہ جہاں متاثرہ خاندانوں کے وکلا جسٹس اعظم خان کی ذات پر حملہ کر کے بینچ کو متنازع بنا سکتے تھے۔ وہ سوشل میڈیا پر بھی طوفان اٹھا سکتے تھے۔
مگر۔!
انہوں نے خود میں اور بزنس گروپ میں ایک فرق رکھنا ضروری سمجھا۔ ویسے بھی جس کو دلیل کی تیراکی آتی ہو وہ تنکوں کا سہارا نہیں لیتا۔
جج صاحبان نے درخواست گزاروں کو سن لیا۔
انہوں نے وہی کچھ سنایا جو جسٹس سردار اعجاز کی عدالت میں اور پوڈکاسٹوں میں سنا چکے ہیں۔ رونے دھونے اور شکایتیں۔
اب طریقہ کار یہ ہے کہ بینچ دوسرے فریق کا موقف سننے کے لیے نوٹس ایشو کرتا ہے۔ نوٹس ایشو کر دیے گئے ہیں۔
مطلب۔؟
مطلب یہ کہ اب عدالت اگلی پیشی پر متاثرہ خاندانوں کے وکلا کے آرگیومنٹ سنے گی۔
بزنس گروپ نے بجا طور پر ایک درخواست کردی کہ جب تک سماعت پوری نہیں ہوتی، کمیشن والے آرڈر کو روک دیا جائے۔ ضابطے کے مطابق عدالت کو ایسا ہی کرنا تھا، ایسا ہی کر دیا گیا۔
اب مرضی آپ کی ہے کہ آپ ایسا کرنے کو سٹے دینا کہتے ہیں، معطل کرنا کہتے ہیں یا قتل عام کہتے ہیں۔
آپ کا بالکل بنتا ہے کہ چار دن کی خوشی کے لیے تھوڑا سا سامان کر لیں۔ انتخاب صاحب کے ماتھے پر دو چُمیاں اور کرلیں۔
اب آگے کیا ہوگا۔؟
چھٹیوں کے دن ہیں۔ یہ جج صاحبان بھی چھٹیوں پر چلے جائیں گے۔ یوں اگلی سماعت ستمبر کے مہینے تک چلی جائے گی۔
دیکھنا ہوگا کہ جج صاحبان دوسرے فریق کو سننے کے بعد کیا فیصلہ کرتے ہیں۔
ہمیں خیر کی امید ہے، مگر یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ جج صاحبان اس کمیشن کو معطل ہی کردیں۔
ایسا اس لیے بھی ہوسکتا ہے کہ کمرہ عدالت میں دلائل کھڑے ہوں، کمرے سے باہر جتھے کھڑے ہوں تو ثبوت و شواہد دیکھنے کی بجائے جتھوں کے تیور کو دیکھا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے یہاں بھی ایسا ہو۔
پھر کیا ہوگا۔؟
پھر متاثرہ خاندان اس فیصلے کے خلاف اپنی اپیل لے کر سپریم کورٹ جائے گا۔ ایسا ہوجاتا ہے تو یہ معاملہ ایک گرینڈ ڈیبیٹ بن جائے گا۔ متاثرہ خاندانوں کو تو یہ بھی وارے میں پڑتا ہے۔ بزنس گروپ مگر کیا کرے گا۔؟
جس کی شکایت یہ ہو کہ اس کو سنا ہی نہیں گیا، اس کو کمیشن سے بھاگنا نہیں چاہیے تھا۔
اس کو مطالبہ کرنا چاہیے تھا کہ ایک آزادانہ کمیشن قائم کیا جائے اور اس کی سماعتیں پبلک کے لیے لائیو کی جائیں۔! ہم سنیں، آپ سنیں دنیا سنے۔! مگر جب سنانے کو کچھ نہ ہو تو یہ کیا سنائیں اور دنیا کیا سنے۔؟
خیر۔!
ایک طرف فرار، حملے، جتھے، گھیراو، دھمکیاں اور تڑیاں ہوں گی۔ دوسری طرف اکیلی دلیل کھڑی رہے گی۔ یہ حُسن آخر تک قائم رہے گا۔ کتنا بھی کھینچ لیا جائے آخر کو فیصلہ ہوگا۔ خیر ہوگی۔!
واپس کریں