
احتشام الحق شامی۔ حسن بن صباح کے مُریدین، جو ’’فدائین‘‘ کہلاتے تھے، اس قدر پُختہ عقیدے کے حامل تھے کہ شیخ کے ایک اشارے پر اپنی جان دینے سے بھی گریز نہ کرتے۔ وہ حسن کے حُکم پر ہر جائز و ناجائز اور خطرناک سے خطرناک کام بھی کر گزرتے۔ اُنہیں اس بات کا یقین ہوتا تھا کہ شیخ اُنہیں ہر جگہ دیکھ رہے ہیں، جس کے باعث وہ اُس کے حُکم سے انحراف کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ انہی جاں بازوں کی مدد سے حسن نے دنیائے اسلام کو کئی سال لرزہ براندام کیے رکھا۔
حسن کے ان فدائین کو بھیس بدلنے میں مہارت حاصل تھی۔ وہ اپنا مشن مکمل ہونے تک اپنی اصل شناخت ظاہر نہ ہونے دیتے اور حصولِ مقصد کے لیے اپنی جان تک قربان کر دیتے۔ شیخ الجبال اپنے فدائین کو خوراک میں بھنگ ملا کر کھلاتا۔ جب وہ بے ہوش ہو جاتے، تو اُنہیں ایک جنت نظیر باغ میں پہنچا دیا جاتا، جہاں دُودھ، شہد اور شراب کی نہریں بہہ رہی ہوتیں اور انواع اقسام کے پھل دار درخت اور گُل دستے ہوتے۔
باغ میں موجود تربیت یافتہ حسین لڑکیاں حُوروں کے رُوپ میں فدائین کی خدمت کرتیں اور جب کچھ عرصے بعد فدائین کو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ وہ جنت میں ہیں، تو اُنہیں ایک مرتبہ پھر بھنگ کے نشے میں مدہوش کر کے اُس مصنوعی جنّت سے نکال دیا جاتا۔ مذکورہ باغ کی سیر کے بعد فدائین اُس مصنوعی جنت کی آرزو میں دیوانے ہو جاتے اور شیخ کے ایک اشارے پر اپنی جان بھی قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے۔سلطان ملک شاہ کو حسن بن صباح کی ان کاروائیوں کی خبر ملی، تو اُس نے لشکر کشی سے پہلے اُس کے پاس اپنا ایک وفد بھیجا اور اطاعت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی، لیکن حسن نے انکار کر دیا۔ ایلچی واپس جانے لگے، تو حسن نے اپنے مُریدوں کی جاں بازی کےچند نمونے دکھانے کے لیے اپنے ایک فدائی کو اپنے پیٹ میں خنجر گھونپنے کا حکم دیا۔ وہ فدائی اُسی وقت اپنے ہی خنجر کے وار سے ڈھیر ہو گیا۔
دوسرے کو کہا کہ ’’بلندی سے چھلانگ لگا دو‘‘، تو وہ فوراً پہاڑ سے کُود گیا۔ تیسرے کو حُکم دیا کہ ’’پانی میں ڈُوب جائو‘‘، تو وہ فوراً غرقِ آب ہو گیا۔ سلجوقیوں کے ایلچی یہ مناظر دیکھ کر دم بخود رہ گئے۔ اس موقعے پر حسن نے گرج دار آواز میں اُن سے کہا کہ ’’ملک شاہ کی پوری فوج بھی اس کے ایک فدائی کی طرح جاں بازی کا مظاہرہ نہیں کر سکتی۔
لہٰذا، وہ ہمیں پریشان نہ کرے، ورنہ اُسے سخت نقصان اُٹھانا پڑے گا۔‘‘وفد کی واپسی کے ڈیڑھ ماہ بعد قلعہ الموت پر متعدد حملے کیے گئے، لیکن اُسے تسخیر نہ کیا جا سکا۔ تاہم، بعد ازاں حسن بن صباح کی موت اور ہلاکو خان کے حملے کے نتیجے میں عالمِ اسلام کو اس فتنہ انگیز عقیدے سے نجات ملی۔
واپس کریں