دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بنوں یا یونیورسٹی آف کرائمز اینڈ کریمینالوجی؟
No image (تحریر،خالد خان )ہے کوئی مائی کا لال جو اس مقدس ادارے کو بچائے جہاں بچیوں کی عزتیں محفوظ نہیں اور جہاں ہر قسم کی کرپشن کے نئے ریکارڈ بن رہے ہیں؟ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بنوں میں عملی طور پر غنڈوں کا راج ہے اور یہ تعلیمی ادارہ ہندوستان کی ساؤتھ ایکشن اور جرائم کی فلمز کا عملی نمونہ ہے۔ سب سے زیادہ قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ ان تمام جرائم میں براہِ راست اساتذہ ملوث ہیں۔

اساتذہ کے مختلف غنڈہ گروپس بنے ہوئے ہیں جو بدنامِ زمانہ جرائم پیشہ افراد کو کلاشنکوفوں کے ساتھ ایک دوسرے کے خلاف اور طلبہ کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اگرچہ متعدد گینگسٹرز، جن میں اساتذہ اور یونیورسٹی کی ایڈمنسٹریشن کے لوگ شامل ہیں، جرائم میں ملوث ہیں، لیکن ان گروپس میں دو گروہ انتہائی مؤثر، خطرناک اور فعال ہیں۔

ان دونوں گروہوں کے سرغنہ عزیز اللہ اور عمردراز ہیں، جو جامعہ کے شعبۂ انگریزی زبان و ادب کے اساتذہ ہیں۔ ان کے خلاف متعدد شکایات بھی درج ہو چکی ہیں، پولیس ایف آئی آرز کی چھان بین بھی ہوئی ہے اور ان کے خلاف ایک درجن سے زیادہ مختلف انکوائریاں بھی ہو چکی ہیں۔ تمام انکوائریاں عزیز اللہ اور عمردراز کے خلاف آئی ہیں اور گورنر خیبرپختونخوا اور صوبائی حکومت کو بھی باقاعدہ تحریری طور پر آگاہ کیا گیا ہے، لیکن ان کے خلاف تادمِ تحریر کوئی بھی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔

عزیز اللہ اور عمردراز جہاں طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرتے ہیں، وہیں انہیں بلیک میل بھی کرتے ہیں۔ عزیز اللہ اپنے ساتھ باقاعدہ اسلحہ بردار غنڈے یونیورسٹی لاتا ہے، اگرچہ یونیورسٹی نے باقاعدہ تحریری طور پر ان غنڈوں کا جامعہ میں داخلہ ممنوع قرار دیا ہے۔ عمردراز عزیز اللہ سے ایک قدم آگے ہے اور وہ طالبات کو اپنا آپ پاک فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا اہلکار ظاہر کر کے انہیں جنسی تعلقات قائم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

انگلش ڈیپارٹمنٹ کی ایک طالبہ نے اپنے ویڈیو پیغام میں ان کرتوتوں سے پردہ اٹھایا ہے، تاہم وہ طالبہ اس ویڈیو کی ریکارڈنگ کے بعد لاپتہ ہے۔ طالبہ کا ویڈیو راقم الحروف کے پاس محفوظ ہے۔ تمام انکوائری رپورٹس، جامعہ کے طلبہ کی درخواستیں اور شکایات بھی راقم الحروف کے قبضے میں ہیں، جو چھان بین کے لیے پیش کی جا سکتی ہیں۔

غنڈہ گردی اور جنسی ہراسانی کے علاوہ یہ گروپس مالی بے قاعدگیوں اور چوری چکاری میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ یونیورسٹی کے حفاظتی سٹیل گرل، جو کروڑوں روپے کی تھی، روزِ روشن میں بنوں کے کباڑیوں کو کوڑیوں کے دام غیر قانونی طور پر بیچی گئی ہے۔ یونیورسٹی کا قیمتی ساز و سامان، جن میں کمپیوٹرز، فوٹو سٹیٹ مشینیں، بیٹریاں، شمسی شیشے، ٹھنڈے پانی کے کولرز اور میز کرسیاں تک شامل ہیں، یہ گروہ زبردستی فروخت کر چکے ہیں۔ گھریلو ضرورت کی ہر چیز، بشمول قیمتی انورٹرز، یہ لوگ گھروں کو لے جا چکے ہیں اور دوستوں اور رشتہ داروں میں بھی تقسیم کر چکے ہیں۔

ان کا ایک اور دھندہ غیر طالب علموں کو جامعہ کی ڈگریاں بیچنا ہے، جس کی قیمت 8 لاکھ روپے فی ڈگری مقرر کی گئی ہے۔ امتحانات میں اعلیٰ نمبر دلانا ان کا ایک اور منافع بخش بزنس ہے، جس سے دیگر فوائد بھی اٹھائے جاتے ہیں۔ ایک اور نقد آور دھندہ جامعہ کی مختلف نوکریاں نیلامِ عام میں بیچنا ہے، جس سے انہوں نے کروڑوں روپے کمائے ہیں۔

ان گروہوں کا ایک اور منفعت بخش روزگار ایک ہی دن میں تین مختلف بیچز کو نجی طور پر پڑھانا ہے، جو یونیورسٹی کو لاکھوں روپے مہینے کے پڑ رہے ہیں۔ تین مختلف کلاسز تکنیکی، قانونی اور اوقاتِ کار کی کمی کی وجہ سے ممکن ہی نہیں ہیں، مگر یہ پھر بھی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بنوں میں وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ یہ کلاسز کبھی جعلی ہوتی ہیں اور کبھی تین مختلف بیچز کو ایک ہی وقت میں ایک ہی کلاس میں بٹھا کر پڑھایا جاتا ہے۔

یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بنوں نے ابھی تک بی ایس انگلش کی جتنی بھی ڈگریاں جاری کی ہوئی ہیں، وہ تمام غیر قانونی ہیں۔ قانون کے مطابق ہائر ایجوکیشن کے منظور شدہ نصاب کو پڑھانا ہوتا ہے، مگر ان جرائم پیشہ اساتذہ کی نالائقی ملاحظہ ہو کہ ان کی پڑھانے کی اہلیت ہی نہیں ہے۔ انہوں نے خود سے کورس وضع کیے ہوئے ہیں، جو ہائر ایجوکیشن کمیشن سے منظور شدہ نہیں ہیں۔ یوں جتنی ڈگریاں جاری کی جا چکی ہیں اور جتنی جاری ہوں گی، سب غیر قانونی ہیں۔ یہ جرائم پیشہ اساتذہ قوم اور بچوں کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔

طلبہ کی فیسوں میں ہیر پھیر اور طلبہ کے سکالرشپس کے چیکس کیش کرنا تو ان کی بہت معمولی واردات ہے، جس کے لیے انہوں نے سرکاری پوزیشنز پر نجی کلرکس کو بٹھایا ہوا ہے۔ ان نجی کلرکس کو ہٹانے کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں متعدد خطوط لکھے ہیں جن کا لب و لہجہ انتہائی معذرت خواہانہ ہے۔ وائس چانسلر اور یونیورسٹی انتظامیہ کو ان غنڈوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے اور خوف کا یہ عالم ہے کہ صوبائی حکومت کی واضح ہدایات کے باوجود وائس چانسلر میں یہ ہمت ہی نہیں کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کرے۔

جو طلباء ان کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں ، ان پر یہ با اثر غنڈے جعلی پولیس کیسز بناتے ہیں۔ایسے ہی ایک واقعہ میں انہوں نے دو طالب علموں پر چوری کا پرچہ کاٹا تھا، جنہیں پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے شفاف انکوائری میں معصوم قرار دیا۔
یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بنوں میں ہوشربا کرپشن کی داستانیں اتنی طویل ہیں کہ ایک مضمون میں اس کا احاطہ ناممکن ہے۔ باری باری ہر کرپشن پر لکھ کر آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔
سب سے اولین بات تو یہ بنتی ہے کہ بنوں کی تمام سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیمیں فوراً سے پیشتر اس انحطاط کے خلاف کھڑی ہو جائیں۔ بنوں کے نوجوانوں اور طلبہ کو آگے بڑھ کر اپنے تعلیمی اداروں کو بچانا چاہیے۔ بنوں ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن فوری طور پر تحقیقات کرکے اس کے خلاف ایکشن لے۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بنوں کو حاصل قانونی اور آئینی اختیارات کے تحت عدلیہ کو اس کے خلاف متحرک ہونا چاہیے۔ اسی طرح ڈسٹرکٹ بار بنوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔
تمام خفیہ ایجنسیاں اور خصوصاً آئی ایس آئی کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے کیونکہ ایک گروہ براہِ راست عوامی سطح پر آئی ایس آئی کا نام استعمال کر رہا ہے۔ مقامی علما کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور بنوں کے روایتی اور سوشل میڈیا کو یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بنوں کی پل پل کی خبر دینی چاہیے۔ پشاور ہائی کورٹ کے معزز چیف جسٹس صاحب، گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی، وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سردار علی امین گنڈاپور اور متعلقہ وزیر تعلیم کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔ صوبائی اسمبلی خیبرپختونخوا کے کسی بھی معزز رکن کو یہ معاملہ اسمبلی میں اٹھانا چاہیے اور ملک بھر کے صاحبانِ رائے خواتین و حضرات، اداروں اور میڈیا کو اس پر آواز اٹھانی چاہیے۔
ہماری آج کی خاموشی، ہماری کل کی تباہی ہو گی۔
واپس کریں