دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مقدمہ کشمیر،سیاسی نظریات اور لیبریشن لیگ
No image احتشام الحق شامی: سرکاری اعدادوشمار (2020-21)کے مطابق آزاد کشمیر کی شرح خواندگی 91.34% بتائی گئی ہے لیکن مقامِ افسوس ہے اور خطہ کی اکثریت کے سیاسی شعور کا عالم یہ ہے کہ سیاسی لیڈران، ووٹر اور سپورٹر اسلام آباد کی جانب دیکھتے ہیں اور”ہوا کے رخ“ کے مطابق اپنی سیاست کرتے ہیں۔یعنی اپنا کوئی سیاسی نظریہ یا سیاسی سوچ سرے سے ہے ہی نہیں،گو کہ آزاد کشمیر کا انتظامی ڈھانچہ اسلام آباد کے ساتھ جڑا ہوا ہے، معیشت بڑی حد تک پاکستانی”امداد“ پر منحصر ہے اور خطہ کی پاکستانی یعنی غیر ریاستی سیاسی جماعتیں اس”امداد“ کے ذریعے مقامی لوگوں کے لیے ترقیاتی منصوبوں، نوکریوں اور دیگر مراعات کا وعدہ کرتی ہیں، جو ووٹروں کو متاثر کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ غیر ریاستی جماعتیں اپنے وسائل، قومی سطح پر اثر و رسوخ اور سیاسی مہارت کی وجہ سے مقامی سیاست پر حاوی ہیں جبکہ مقامی سیاسی جماعتیں یا تحریکیں نسبتاً کمزور ہیں۔ نتیجتاً، غیر ریاستی سیاسی جماعتیں اپنی منظم ڈھانچے اور وسائل کی بدولت باری باری اقتدار میں رہتی ہیں۔
دور کی سیاسی نظر رکھنے والے تجزیہ کار اس رجحان پر تنقید کرتے ہیں، ان کا خیال ہے غیر ریاستی جماعتوں کا غلبہ آذاد کشمیر کی مقامی خودمختاری اور آزاد سیاسی شناخت کو کمزور کرتا ہے اور خطہ میں غیر ریاستی سیاسی جماعتوں کی مضبوط گرفت اور وسائل کی وجہ سے ان کا اثرخطہ کی خودمختاری کے بارے میں جو خدشات پیدا کرتا ہے اس کا منفی اثر کشمیر کے مقدمے کو کمزور کرتا ہے۔
دوسری جانب خود مختار کشمیر کی حامی سیاسی جماعتیں آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات میں حصہ نہیں لیتیں کیونکہ وہاں کے انتخابی قوانین اور آئینی تقاضوں کے تحت امیدواروں کو ایک حلف نامے پر دستخط کرنا ہوتا ہے جس میں وہ پاکستان کے ساتھ الحاق اور پاکستان کی سالمیت و خودمختاری پر یقین کا اقرار کرتے ہیں۔ یہ شرط خود مختار کشمیر کی حامی جماعتوں کے نظریے سے متصادم ہے، جو مکمل خود مختاری یا ایک آزاد کشمیری ریاست کے قیام کی وکالت کرتی ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے پاس حقیقی خود مختاری یا اختیار نہیں ہے اور یہ کہ انتخابات زیادہ تر پاکستانی سیاسی جماعتوں کے زیر اثر ہوتے ہیں، جو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے چلتے ہیں۔
جہاں تک آذاد کشمیر کی مقامی سیاسی جماعتوں اور ریاست کے تشخص کی بات ہے تو آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس اپنے مقامی ہونے اور ریاستی تشخص کا نعرہ بلند کرنے میں پیش پیش رہی ہے لیکن حقائق بتاتے ہیں خطہ میں سب سے زیادہ عرصہ اقتدار میں رہنے والی اس جماعت کو ہمیشہ سے پاکستانی اشٹبلشمنٹ کی مدد اور حمایت حاصل رہی ہے اور جہاں تک اس جماعت کے جمہوری ہونے کا تعلق ہے تو اس کا اندازہ جماعت کے موجودہ سربراہ کے ایک بیان سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ”ملٹری ڈیموکریسی“ کے حامی ہیں۔(جیسے کہ ان کی جماعت برسوں سے رہی ہے اور ابھی غیر سیاسی طاقتوں کے سہارے کی منتظر ہے)
آزاد کشمیر کے عام انتخابات میں وفاقی حکومتوں کی حامی غیر ریاستی سیاسی جماعتوں کی جیت اور غلبہ کی روایت رہی ہے جو مقامی ایشوز سے زیادہ غیر ریاستی ایجنڈوں پر توجہ دیتی ہیں جبکہ ریاستی سیاسی جماعت جموں کشمیر لیبریشن لیگ کی آمدہ الیکشن میں شمولیت سے یہ روایت ٹوٹ سکتی ہے اور مقامی مسائل، خاص طور پر خودمختاری اور شناخت کے سوال کو زیادہ اہمیت مل سکتی ہے۔
اگرچہ لیبریشن لیگ روایتی طور پر انتخابات کا بائیکاٹ کرتی رہی ہے کیونکہ وہ آزاد کشمیر کے موجودہ سیاسی ڈھانچے کو پاکستان کے زیر اثر مانتی ہے، لیکن آمدہ الیکشن میں حصہ لینا ان کے اپنے لیے اور خودمختاری کے ایجنڈے کو سیاسی طور پر آگے بڑھانے کا ایک بہترین طریقہ ہو سکتا ہے۔
خاص طور پر اب جب کہ دیکھا جا رہا ہے کہ نوجوان نسل اور مکمل خودمختاری کی وکالت کرنے والوں کی تعداد میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، ایسے میں کے آذاد کشمیر کے سابق صدر ایچ خورشید مرحوم کی بنائی ہوئی، موروثیت سے پاک، قانون دان قیادت پر مشتمل اور الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ جموں کشمیر لیبریشن ایک بہترین سیاسی پلیٹ فارم ہے جہاں سے الیکشن میں حصہ اور قانون ساز اسمبلی میں پہنچ کر کشمیر کی مکمل آذادی اور خود مختاری کا بیانیہ پیش کیا جا سکتا ہے جس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا۔
ریاست میں چونکہ مضبوط سیاسی نظریات کا قحط ہے اس لیئے عام انتخابات کو نزدیک آتا دیکھ کر حسب روایت سیاسی پرندوں نے مختلف اطراف اپنی اڑانیں بھرنا شروع کر دی ہیں۔”سیاسی اور انقلابی نظریہ“ اگر نالی،نلکے،پانی کے پائپ کے حصول اور سرکاری تبادلوں کے ارد گرد طواف کرتا ہے تو ضرور غیر ریاستی سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیجئے اور ان کے جھنڈے بھی لہرایئے لیکن اگر اپنا معیار، ریاستی تشخص اور وطن کی مکمل آذادی و خود مختاری مطلوب ہے تو سوچ سمجھ کر سیاسی جماعتوں کی حمایت اور انہیں اپنا قیمتی ووٹ دیجئے گا۔سلامت رہیں
واپس کریں