
صدر ڈونلڈ ٹرمپ، امریکی اشٹبلشمنٹ کی اسی پالیسی کو چلانے پر مجبور ہوئے ہیں جو ان کے پیشرو جو بائیڈن کے دور میں چلتی رہی ہے جبکہ اس سے بھی پہلے سابقہ صدور، رچرڈ نکسن،رونالڈ ریگن،جارج بش،بل کلنگٹن اور بارک اوبامہ کے ادوارِ حکومتوں میں یہی امریکہ پالیسی جاری رہی ہے یعنی امریکہ کو عالمی طاقت برقرار اور ظاہر کرنے کے لیئے اسے ہمیشہ جنگوں میں شامل کیئے رکھنا اورمقصد صرف یہ نہیں کہ کسی مسلم ملک کو ایٹمی صلاحیت سے دور رکھنا بلکہ دنیا بھر میں اپنی مرضی کی حکومتوں کا قیام، چاہے اس کی لیئے فوجی مداخلت ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ اس ضمن میں عراق کی مثال واضع ہے کہ کس طرح امریکہ نے صدر صدام حسین کا تختہ الٹنے کے بہانے عراق پر حملہ کر دیا تھا حالانکہ امریکہ حملے سے قبل انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق عراق میں کسی ایسی سرگرمی کا کوئی نشان یا ثبوت نہیں ملا تھا جس سے واضع ہو کہ عراق ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا بھر میں عراقی حمایت میں تاریخی مظاہرے ہوئے لیکن عراق پر حملہ کر دیا گیا تھا۔
”نوبل انعام“ کی خواہش بظاہر تو یہی ظاہر کرتی ہے کہ ٹرمپ دنیا میں امن چاہتا ہے لیکن امر واقع یہ ہے کہ امریکی اشٹبلشمنٹ کی پالیسی کے مطابق فی الحال یہ ممکن نہیں کیونکہ مقصد دنیا پر اامریکی حاکمیت کو قائم رکھنا ہے جس کے لیئے جنگیں اور مخصوص ممالک میں امریکی مفادات کے لیئے عدم استحکام قائم رکھنا ضروری ہے اور اس وقت ایران اور اسرائیل، صدر ٹرمپ کی دلچسپی اور پالیسی سے زیادہ امریکی اشٹبلشمنٹ کا ہدف ہے۔
سب جانتے ہیں ٹرمپ کے دونوں مرتبہ اقتدار میں آنے کو امریکی اشٹبلشمنٹ نے پسند نہیں کیا۔ناچیز کو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہمارے وزیر اعظم کی طرح امریکی صدر بھی اتنا ہی”بااختیار“ ہے۔ تاز ہ ثبوت ہے کہ جس دن ٹرمپ اسرائیل اور ایران کی صلح کی کوششوں کا بیان اور دو ہفتوں کا وقت دیتا ہے اس کے دو دن بعد ہی امریکی بمبار طیارے ایران پر حملہ کر گزرتے ہیں۔یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کیونکہ اس چانک اقدام سے ٹرمپ کی زاتی اور سیاسی ساکھ کو یقینا نقصان پہنچا ہے۔ ابھی گزشتہ روز ایران کی جانب سے خیلجی ممالک میں امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنانے کے بعد گزشتہ رات صدر ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کے دعوے کے بعد ٹویٹ کرنا کہ”تمام لوگوں کو مبارک ہو! اسرائیل اور ایران کے درمیان مکمل جنگ بندی پر اتفاق ہوگیا ہے۔اگلے 6 گھنٹے میں ایران اور اسرائیل اپنے جاری مشن مکمل کریں گے، اگلے 12 گھنٹے میں جنگ کو ختم سمجھا جائے“ کو نوبل انعام کی خواہش کے تناظر میں دیکھا جائے،لیکن اب دیکھنا یہ ہو گا کہ اس ضمن میں امریکی اشٹبلشمنٹ کا اگلا اقدام یا منصوبہ کیا ہو گا۔
ہالی ووڈ کی ایک فلم میں امریکی اشٹبلشمنٹ کا ایک عہدیدار منتخب خاتون وزیرِا عظم کو کسی بات پر ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وزیر اعظم اسے غصے سے ٹوکتے ہوئے کہ کہتی ہے کہ”مجھے عوام نے فیصلہ سازی کے لیئے ووٹ دیا ہے،تمہارا کون سا حلقہ انتخاب سے کہاں سے تم نے ملک کے فیصلے کرنے کے لیئے عوام سے و وٹ لیئے ہیں؟“ اس پر امریکی اشٹبلشمنٹ عہدیدار بہت مطمعن ہو کر جواب دیتا ہے کہ”پورا امریکہ ہمارا حلقہِ انتخاب ہے“۔اس فلم کا یہ کلپ ناچیز نے ایک مرتبہ فیس بک پر شیئر بھی کیا تھا۔
ہالی ووڈ کی ہی ایک اور فلم میں سی آئی اے کا اعلیٰ عہدیدار ایک موقع پر کانگریس مین کو کہتا ہے ”امریکی صدر اور آپ لوگ تو آتے جاتے رہتے ہیں اور دنیا میں جارہی جنگوں کے خلاف اور امن کے حق میں پبلک جلسے جلوس بھی نکالتی رہتی ہے لیکن جو حتمی پالیسی یا فیصلہ کرنا ہوتا ہے وہ ہم نے ہی کرنا ہوتا ہے اور ہم ہی ہیں جو اصل میں امریکہ کو چلا رہے ہیں“
یہ اہم ہے کہ ہالی ووڈ ہر دوسری فلم میں کسی نہ کسی طور امریکی اشٹبلشمنٹ کی ”پالیسی“ کی جھلک ضرور دکھائی جاتی ہے۔
واپس کریں