
پانچ نوجوان سب کی عمریں انیس سے چوبئیس سال کے درمیان تھیں ۔پانچ نوجوان جنکی آنکھوں میں خواب تھے ۔کسی کی شادی نہیں ہوئی تھیں ۔سب کا تعلق غریب اور متوسط گھرانوں سے تھا ۔سارے زندگی میں آگے بڑھنے کی دوڑ میں شامل تھے ۔کوئی طالبعلم تھا ۔کوئی پانی سوڈا فروخت کر کے گھر والوں کو پالتا تھا ۔کوئی پرائیویٹ ایف کے پیپر دے کر بی اے کی کتابیں خرید کر لایا تھا اور ایک فارماسیوٹیکل کمپنی میں کام کرتا تھا ۔ایک نوجوان راج مستری تھا مزدوری کر کے گھر والوں کو پالتا تھا ۔انہیں بلاسفیمی بزنس گروپ نے ایک لڑکی ایمان کے زریعے ٹریپ کیا ۔ان پر بلاسفیمی کے مقدمات ہوئے اور یہ جیل میں مر گئے ۔توہین مذہب کے سنگین الزام کی وجہ سے انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔چار جیل میں مارے گئے ۔کسی کے مقدمہ کا فیصلہ نہ ہوا کہ یہ حقیقت میں ملزم تھے یا انہیں پھنسایا گیا تھا ۔ایک کی سربریدہ لاش بنی گالا کے جنگل سے ملی ۔
سب سے دل ہلا دینے والی کہانی بائیس سالہ فاطمہ جہانگیر کی ہے ۔متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والی یہ معصوم صورت بچی تفسیر قرآن کی طالبہ تھی ۔پانچ وقت نماز پڑھنے والی علامہ اقبال یونیورسٹی کی طالبہ بھی تھی ۔فاطمہ کے خلاف مدعی محمد عرفان تھا ۔بلاسفیمی بزنس گروپ کا یہ انتہائی ہنر مند رکن پندرہ اور نوجوانوں کے خلاف بلاسفیمی کے مقدمات میں مدعی ہے اور سارے ملزم جیلوں میں ہیں ۔فاطمہ محمد عرفان کا سولہواں شکار تھی ۔فاطمہ بلاسفیمی کے مقدمہ میں گرفتار ہوئی ۔ایف آئی اے کے ٹارچر سیل میں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد جیل بھیج دی گئی اور وہاں مر گئی ۔ڈپریشن سے مری ،تشدد سے مری پوسٹ مارٹم ہی نہیں کیا گیا ۔
انیس سالہ عبداللہ شاہ پرائیویٹ بی اے کرنے کیلئے کتابیں خرید کر لایا تھا۔ فارماسیوٹیکل کمپنی میں نوکری کرتا تھا ۔ایمان فاطمہ نے ہنی ٹریپ کیا ۔ایف ٹن سے اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھایا اور پھر اسکی سربریدہ لاش ملی ۔
بیس سالہ علی حسنین کا والد اسکی گرفتاری سے چند ماہ پہلے انتقال کر گیا تھا ۔یہ نوجوان اپنی ماں اور بہن کو پالنے کیلئے کالج کی تعلیم چھوڑ کر نوکری کی تلاش میں تھا ۔اسے بھی ایمان فاطمہ کے زریعے ٹریپ کیا گیا اور بلاسفیمی کا مقدمہ درج کر لیا گیا ۔چوبیس اپریل کو حسنین گرفتار ہوا اور نو جون کو اڈیالہ جیل میں پراسرار حالات میں مر گیا ۔
چوبیس سالہ سوہان خان راج مستری تھا ۔مزدوری کرتا تھا ۔پندرہ مئی کو گرفتار ہوا اور یکم جون کو ملیر جیل کراچی میں پراسرار حالات میں مر گیا ۔
اس کیس کا مدعی بھی بلاسفیمی بزنس گروپ کراچی چیپٹر کا متحرک رکن محمد علی صدیقی تھا ۔الزام کے جھوٹا ہونے کی وجہ سے اس کیس کے دوسرے ملزم کو عدالت نے بری کر دیا لیکن سوہان خان انصاف ملنے سے پہلے جان گنوا بیٹھا ۔
لکی مروت کا سفیر اللہ محض بائیس سال کا تھا ۔یہ نوجوان کیمپ جیل لاہور میں پراسرار حالات میں مر گیا ۔
سارے مرنے والے ایک ہی طریقے سے بلاسفیمی کے ملزم بنے ۔پہلے واٹس اپ گروپ میں شامل ہوئے ۔گروپ میں توہین آمیز مواد پوسٹ ہوا ۔انہوں نے گروپ ایڈمن سے شکائت کی ۔ایڈمن نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے مواد بھیجنے کو کہا ۔مواد بھیجتے ہی یہ توہین آمیز مواد بھیجنے کے ملزم بن گئے ۔بلاسفیمی بزنس گروپ کا کوئی رکن مدعی بنا اور یہ جیلوں میں بھیج دئے گئے ۔اس وقت چار سو سے زیادہ بلاسفیمی کے مقدمات ہیں ۔سینکڑوں نوجوان جیلوں میں ہیں ۔پانچ مر چکے ہیں ۔بلاسفیمی بزنس گروپ کے اراکین بعض معاملات میں درجنوں مقدمات کے مدعی ہیں ۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس وقت تک کم از کم چار مقدمات کی سی سی ٹی وی فوٹیج پیش کر دی گئی ہے جس میں بلاسفیمی گروپ کے ارکان اکیلے یا ایف آئی اے کے ساتھ ملزمان کو ہنی ٹریپنگ گرل کے زریعے کسی مخصوص جگہ پر بلاتے ہیں اور پھر گرفتار کر لیا جاتا ہے ۔
پھنسائے گئے مرغے کو گرفتاری کے وقت پتہ چلتا ہے اس نے جو مواد واٹس اپ گروپ کے ایڈمن کو بھیجا تھا بلاسفیمی کا ملزم بن چکا ہے ۔
فیکٹ فوکس۔
واپس کریں