دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا غزہ ہم سب کا مشترکہ مستقبل ہے۔عمار علی جان
No image امریکی قیادت نے اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران میں رجیم چینج کا فیصلہ کرلیا ہے۔ بہت زیادہ امکان ہے کہ امریکہ افواج براہ راست ایران پر حملہ کرکے موجودہ حکومت کی جگہ وطن فروش رضا پہلوی کی حکومت قائم کروا دے۔ ایران کو صرف اس بات کی سزا مل رہی ہے کہ اس نے فلسطین کی مزاحمت کی عملی طور پر مدد کرنے کی کوشش کی اور اپنے وسائل کو امریکی کمپنیوں کی پہنچ سے دور رکھا۔ لیکن امریکہ اور اسرائیل دنیا کے لئے ایک بھیانک مستقبل کا نقشہ کھینچ چکے ہیں۔
امریکہ اور اسرائیل دو آپشن دے رہے ہیں۔ یا تو ہمارے آگے لیٹ جاو یا بمباری کے لئے تیار ہوجاو۔ قذافی کو کیوں قتل کیا گیا تھا؟ عراق شام اور یمن پر کیوں بمباری کی گئی تھی؟ غزہ پر بار بار نسل کش حملے کیوں ہوتے ہیں؟ یہ حکومتیں امریکی پالیسی سے اختلاف کرنے کی جرآت رکھتے تھیں جس کی وجہ سے ان ممالک کو تباہ کردیا گیا۔ ان تباہ حال معاشروں میں داعش کی طرح کی تنظیموں نے بھی جنم لیا جس نے خطے کی تہذیب کو برباد کردیا۔ امریکہ اور اسرائیل ریاستی دہشت گردی کے ذریعے اس وقت کھنڈرات کی دنیا تخلیق کررہے ہیں جس کا اولین مقصد ہر اس ریاست کو ختم کرنا ہے جو ان کے استعماری عزائم کو چیلنج کرسکے۔
اس وقت ترقی پسند قوتوں کے لئے چیلینج یہی ہے کہ کس طرح اپنے سماج کے وجود کو بچایا جاسکے۔ کل کو ایران تباہ ہوگیا تو اس کے لاکھوں باشندے بھی غزہ، شام اور یمن کی عوام کی طرح ہجرت کرنے اور مہاجرین کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ ایسے وقت میں کونسے انسانی حقوق، کون سی شریعت، کونسی سوشلزم، کونسے عورتوں کے حقوق، یا کونسی قومی جنگوں کی بحثیں رہ جائیں گی؟ بس بھوک اور قلت ہوگی جبکہ کھانے کے سامان پر غزہ کی طرح صہونی قوتوں کی اجارہ داری ہوگی۔ جس کو چاہے زندہ رکھے جس کو چاہے مار دے۔ خطرہ کسی سوچ کو نہیں، پورے معاشرے کے وجود کو ہوگا۔
ترقی پسندوں کو اب نعرے بازی ترک کرکے حکمت عملی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ مشرقی وسطی کے علاوہ روس، چین، کیوبا اور دیگر تمام ممالک کے لئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے پاس ایک ہی نسخہ موجود ہے جس میں رجیم چینج کے ساتھ ساتھ ان ممالک کی ریاستوں کو کمزور کرنا یا توڑنا شامل ہے۔ ہمارے کچھ نادان دوست مغربی پروپگینڈے میں آکر سمجھ لیتے ہیں کہ واقع میں ہی ان ممالک میں جمہوریت کے فقدان کی وجہ سے امریکہ ٹینشن میں ہے۔ دوسرا انہیں یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ جس طرح کی بدمعاشی اس وقت امریکہ اور اسرائیل کررہا ہے، اس میں کوئی بھی حکومت سکیورٹی کو اہمیت دیئے بغیر ان کا مقابلہ کیسے کرسکتی ہے؟ کیا کیوبا یا شمالی کوریا کو سکیورٹی سٹیٹ بننے کا شوق تھا؟ شمالی کوریا میں امریکہ نے لاکھوں باشندوں کا قتل کیا جس کے بعد وہاں کی لیڈرشپ پر عسکری سوچ حاوی ہوئی۔ آپ جتنی مرضی انقلابی تحریک بنالیں، اگر آخر میں اسرائیل جیسی نسل کش ریاست آپ پر بمباری کرکے آپ کو ختم کردے تو پھر انقلاب کہاں جائے گا؟
اس وقت ایران پر امریکی اور اسرائیلی جارحیت کے وقت باقی تمام باتیں ایک طرف رکھنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلا فرض اس وقت ایران کی سالمیت کا دفاع ہے کیونکہ باقی تمام چیزیں اس سوال سے جڑی ہیں۔ اگر ایران صہونیت کا اڈا بن گیا تو پھر یہ اسرائیل اور امریکہ کی مرضی ہوگی کہ کس ملک کو بخش دے اور کس کو غزہ میں تبدیل کردے۔ میں لائحہ عمل کے سوال پر مزید لکھوں گا لیکن یہ بات طے ہے کہ محض انسانی حقوق کی گفتگو سے اب آگے بڑھ کر geopolitics کا سنجیدہ جائزہ لینے کا وقت آگیا یے۔
ایسے میں امریکی اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف ہمیں ایران کی عوام اور افواج کی غیر مشروط حمایت کرنی چاہئے جو فلسطین کی نسل کشی کی مخالفت کی بھرپور قیمت ادا کررہے ہیں۔ اور مغربی ممالک پر ایک سیکنڈ کے لئے بھی اعتبار نہیں کرنا چاہئے جو نسل کش ریاست کو اربوں ڈالر سے نواز رہے ییں جبکہ نسل کشی کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کی امداد کرنے والی حکومت کو رجیم چینج کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ خطے میں امریکی مداخلت اب ہمارے لئے زندگی موت کا سوال ہے۔ چین سے لے کر ایران اور روس سے لے کر پاکستان، تمام ممالک کو سالمیت کے سوال پر ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوگا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر غزہ ہم سب کا مشترکہ مستقبل ہے۔
واپس کریں