دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ریاست پاکستان بریٹن ووڈ سسٹم کی غلام: آئی ایم ایف کے نام خط
No image (اکمل سومرو لاہور)وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک نے اپریل 2025ء میں آئی ایم ایف کو خط لکھا، اس خط میں آئی ایم ایف کو ضمانت دی گئی کہ بجٹ آئی ایم ایف کی اجازت سے بنایا جائے گا، بجٹ میں آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری ہوں گی، وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔ یاد رکھیں اس خط پر دستخط کرنے والے دونوں صاحبان ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے مفادات کے ضامن ہیں۔ اس خط کا عنوان تھا Letter of Intent۔ آئی ایم ایف کی مئی 2025ء میں پاکستان سے متعلق رپورٹ شائع ہوئی تھی 160 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ پڑھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آج پیش ہونے والا وفاقی بجٹ آئی ایم ایف نے ایک مہینہ پہلے تیار کیا تھا۔ اس خط میں مزید ایک ارب 39 کروڑ ڈالر کا قرض آئی ایم ایف سے مانگا گیا ہے، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت ریاست پاکستان کو مفلوج کر چکی ہے، با شعور نوجوان، اپنی آنکھیں کھولے۔2008ء میں پاکستانی عوام نے 1783 ارب روپے بطور ٹیکس قومی خزانے میں جمع کرائے تھے۔ اب حیران کن طور پر اس سال پاکستانی عوام 17,815 ارب روپے بطور ٹیکس ادا کریں گے — یعنی 899 فیصد اضافہ۔ 2008ء میں حکومت کے اخراجات 2,000 ارب روپے تھے۔ اب حیران کن طور پر اس سال حکومت پاکستان 19,000 ارب روپے خرچ کرے گی۔ امریکا نے دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر جو بریٹن ووڈ کا معاشی نظام تشکیل دیا تھا، امریکا نے پاکستان کو اسی بریٹن ووڈ سسٹم کے تحت اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔
اظہارِ نیت کا خط
محترمہ کرسٹالینا جورجیوا
منیجنگ ڈائریکٹر، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ
700، 19ویں اسٹریٹ، نارتھ ویسٹ
واشنگٹن ڈی سی، 20431، امریکہ
اسلام آباد، 24 اپریل 2025ء
محترمہ جورجیوا،
1۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے توسیعی سہولت کے تحت دیے گئے انتظامی پروگرام (EFF) کی معاونت سے ہمارا معاشی پروگرام ایک اچھے آغاز کے ساتھ پیش رفت کر رہا ہے۔ عالمی سطح پر درپیش چیلنجوں کے باوجود ہم نے معاشی استحکام بحال کرنے اور اعتماد کی فضا قائم کرنے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ بالخصوص، اقتصادی نمو کی بحالی کا عمل شروع ہو چکا ہے، مہنگائی کم ترین سطح پر ہے، خودمختار قرضوں کے پھیلاؤ میں نمایاں کمی آئی ہے، بیرونی کھاتوں میں بہتری آئی ہے، اور زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً تین گنا ہو چکے ہیں۔
2۔ یہ کامیابیاں ہماری ازسرنو وضع کردہ پالیسیوں اور EFF پروگرام کے تحت دی گئی شرائط پر مؤثر عملدرآمد کا نتیجہ ہیں۔ ہم نے دسمبر 2024 کے اختتامی اہداف برائے کارکردگی (Quantitative Performance Criteria) کامیابی سے حاصل کیے، جو مالیاتی اور بیرونی شعبوں میں ہماری سنجیدہ کوششوں کا مظہر ہیں۔ قابل ذکر طور پر، اسٹیٹ بینک کی جانب سے بڑے پیمانے پر غیر ملکی زرمبادلہ کی خریداری کی بدولت خالص بین الاقوامی ذخائر کے ہدف سے کہیں آگے نکل گئے، جبکہ عمومی حکومتی بنیادی خسارے کی حد کو محتاط بجٹ کے نفاذ کے باعث باآسانی پورا کیا گیا۔ اندرونی قرضے کی مدتِ ادائیگی کے اوسط وقت سے متعلق دسمبر کا ہدف بھی، ستمبر میں ہدف پورا نہ ہونے کے بعد، حاصل کر لیا گیا۔ تاہم، ایف بی آر کی جانب سے خالص ٹیکس وصولیوں کے اہداف (ستمبر اور دسمبر) مکمل نہ ہو سکے، جس کی بنیادی وجوہات معیشت کی نامیاتی نمو میں توقع سے کم اضافہ، بالواسطہ ٹیکسوں (مثلاً ایکسائز ڈیوٹی) کی کم کارکردگی، اور مالی سال 25 کے فنانس ایکٹ میں شامل اقدامات سے آمدنی کے اندازوں سے کم نتائج تھے۔ ہم پُرعزم ہیں کہ رواں مالی سال کے اختتام تک متفقہ ٹیکس برائے جی ڈی پی تناسب حاصل کریں گے۔ اسی طرح، سندھ اور خیبرپختونخوا میں منصوبہ بندی اور عملدرآمد کی محدود صلاحیت کی وجہ سے صحت اور تعلیم کے شعبے میں حکومتی اخراجات کے اہداف بھی پورے نہ ہو سکے۔
3۔ ہمارے اصلاحاتی ایجنڈے کے کئی اہم نکات پر خاطرخواہ پیش رفت ہوئی ہے، اگرچہ بعض مقامات پر معمولی تاخیر بھی ہوئی۔ نو اسٹرکچرل بینچ مارکس (Structural Benchmarks) بروقت مکمل کیے گئے، جن میں چاروں صوبوں کے ساتھ قومی مالیاتی معاہدے کی منظوری اور کفالت پروگرام کے نقد امدادی رقوم میں مہنگائی کے حساب سے ایڈجسٹمنٹ شامل ہیں۔ زرعی آمدنی پر ٹیکس کا نفاذ ایک بڑی پیش رفت ہے جو ٹیکس نیٹ کو وسعت دے گا اور نظام میں انصاف کو فروغ دے گا، اگرچہ اس میں قلیل تاخیر ہوئی کیونکہ اس کے لیے مرکز اور صوبوں کے درمیان پیچیدہ مشاورت درکار تھی۔ کیپٹیو پاور پلانٹس کو قومی گرڈ سے منسلک کرنے سے متعلق جنوری 2025 کے ہدف کو ہم تکنیکی پیچیدگیوں کے باعث پورا نہ کر سکے، تاہم ہم نے قیمتوں پر مبنی مؤثر ترغیبات متعارف کروائی ہیں تاکہ پلانٹس کے گرڈ پر منتقلی کا عمل شروع ہو سکے۔ دو نجی بینکوں کے سرمایے میں اضافہ کا ہدف بھی مکمل نہیں ہو سکا، مگر ہمیں توقع ہے کہ آئندہ چند ماہ میں یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ اسی طرح، خودمختار دولت فنڈ (SWF) ایکٹ میں ترامیم سے متعلق ہدف بھی مکمل نہیں ہو سکا، جس کی وجہ اصلاحاتی پیکیج کی فنی نوعیت پر مشاورت کی ضرورت تھی، تاہم اس ضمن میں پیش رفت جاری ہے۔ مسلسل نگرانی کے تحت تینوں اسٹرکچرل بینچ مارکس کامیابی سے مکمل کیے جا چکے ہیں۔
4۔ عالمی سطح پر غیر یقینی صورت حال، اندرونی کمزوریاں اور ساختی رکاوٹیں برقرار ہونے کے باوجود، ہم پائیدار اور جامع ترقی کے لیے محتاط اور مستحکم معاشی پالیسیوں کے نفاذ کے لیے پُرعزم ہیں تاکہ پاکستان کو دیرپا ترقی کی راہ پر ڈالا جا سکے اور عوام کے معیارِ زندگی کو بہتر بنایا جا سکے۔ آئندہ مہینوں میں ہماری پالیسی کا رخ درج ذیل ترجیحات کے گرد گھومے گا:
■مالی سال 25 کے بجٹ پر مؤثر عملدرآمد جاری رکھا جائے گا، جبکہ مالی سال 26 کا بجٹ آئی ایم ایف کے ساتھ قریبی مشاورت سے تشکیل دیا جائے گا، جس کا بنیادی ہدف جی ڈی پی کے 1.6 فیصد کے برابر بنیادی فاضل خسارہ ہوگا۔ محصولات کو جی ڈی پی کے تناسب سے بڑھانے، ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور ٹیکس کی پاسداری بہتر بنانے کے لیے کوششیں جاری رہیں گی۔
■مانیٹری پالیسی محتاط انداز میں سخت رکھی جائے گی تاکہ مہنگائی کو ہدفی دائرے میں مستقل طور پر رکھا جا سکے، اور ایکسچینج ریٹ کو آزادانہ طور پر خارجی دباؤ کو جذب کرنے دیا جائے گا۔
■توانائی کے شعبے میں لاگت میں کمی کے لیے اصلاحات کا عمل تیز کیا جائے گا تاکہ اس شعبے کو مالی طور پر مستحکم بنایا جا سکے؛ توانائی کے نرخوں میں ایڈجسٹمنٹ بروقت کی جائے گی تاکہ بجٹ پر دباؤ کم ہو۔
■سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ان کے نظم و نسق کے فریم ورک کو مکمل طور پر نافذ کیا جائے گا؛ SWF کی نگرانی بہتر بنانے کے لیے قانون سازی میں ضروری ترامیم کی جائیں گی؛ دیگر طرز حکمرانی اور انسدادِ بدعنوانی اصلاحات پر بھی پیش رفت کی جائے گی؛ تجارتی رکاوٹوں کو بتدریج ختم کیا جائے گا؛ اور ماحولیاتی تبدیلی سے ہم آہنگ پالیسیوں کو اپنایا جائے گا۔
5۔ گزشتہ دو سالوں میں حاصل کی گئی پیش رفت کو مدِنظر رکھتے ہوئے اور اپنے پروگرام کے تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے ہم درج ذیل امور کی منظوری کے خواہاں ہیں:
■ جون 2025 تک خالص بین الاقوامی ذخائر اور خالص ملکی اثاثوں کے اہداف میں ترمیم تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کیا جا سکے اور مالیاتی اشاریوں پر قابو رکھا جا سکے؛
■ نئے ٹیکس دہندگان کی ٹیکس ریٹرنز سے متعلق اہداف کی دائرہ کار کے مطابق ازسرِ نو تشکیل؛
■ایکسٹینڈ فنڈ فیسیلیٹی کے تحت پہلے جائزے کی تکمیل اور اس سے منسلک 760 ملین ایس ڈی آر کی رقم کی ادائیگی کی منظوری۔
ہم پُراعتماد ہیں کہ ہماری پالیسیوں پر مستقل عملدرآمد سے نہ صرف سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا بلکہ اگلے دو برس میں ہم بین الاقوامی مالیاتی منڈیوں تک دوبارہ رسائی حاصل کر لیں گے، اور ترقیاتی و دوطرفہ شراکت داروں سے اضافی مالی معاونت بھی ممکن ہو سکے گی۔ درحقیقت، EFF کی منظوری کے بعد ہم اپنے بڑے ترقیاتی شراکت داروں سے مالی وعدوں کی تکمیل کی جانب خاطر خواہ پیش رفت کر چکے ہیں۔
6۔ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے شدید اثرات کا سامنا ہے، جیسا کہ 2022 کے تباہ کن سیلاب نے ثابت کیا۔ ان خطرات کے پیشِ نظر ہم اپنے تحفظاتی اقدامات میں وسعت دے رہے ہیں۔ اسی سیاق میں ہم 28 ماہ کے لیے 1 ارب 39 کروڑ ڈالر (جو کوٹے کے 49 فیصد کے برابر ہے) کی مالیت کے ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی فسیلٹی (RSF) کے تحت معاونت کی درخواست کرتے ہیں۔ اس پروگرام کے تحت اصلاحات کی نگرانی EFF کے ساتھ ہم وقت جائزوں کے ذریعے کی جائے گی۔ ہم درخواست کرتے ہیں کہ RSF کے تحت ادائیگیاں براہِ راست بجٹ معاونت کے طور پر کی جائیں تاکہ ہمیں مالی گنجائش حاصل ہو سکے اور ہم معیشت کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچانے کے قابل ہو سکیں۔ شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے اسٹیٹ بینک اور وزارتِ خزانہ کے درمیان ایک مفاہمتی یادداشت طے پا چکی ہے جو IMF کے تحت واجبات کی بروقت ادائیگی سے متعلق دونوں اداروں کی ذمہ داریوں کی وضاحت کرتی ہے۔
7۔ منسلک معاشی و مالیاتی پالیسیوں کے یادداشت میں دی گئی حکمتِ عملی ہمارے پروگرام کی کامیابی کی راہنمائی کرے گی۔ تمام صوبے اس بات پر متفق ہیں کہ وہ ایسی کوئی پالیسی یا اقدام نہیں اپنائیں گے جو اس خط یا منسلک MEFP میں بیان کردہ اہداف و وعدوں سے متصادم ہو۔ ہم معاشی پیش رفت پر مسلسل نگاہ رکھیں گے اور درکار اضافی اقدامات سے گریز نہیں کریں گے۔ کسی بھی پالیسی میں تبدیلی یا نئی پالیسی اپنانے سے قبل ہم IMF سے مشاورت کریں گے، جیسا کہ فنڈ کے طے شدہ ضوابط میں درج ہے۔ تمام صوبے وفاقی وزارتِ خزانہ کے ذریعے IMF سے مشاورت پر متفق ہیں اگر کوئی اقدام پروگرام کے مقاصد سے انحراف کرتا ہو۔ ہم IMF کو بروقت اور درست معلومات فراہم کرتے رہیں گے تاکہ پروگرام کی مؤثر نگرانی ممکن ہو۔ کارکردگی کے اشاریوں اور اصلاحاتی اقدامات کے حوالے سے ہمارے اور IMF کے درمیان جو باتیں طے پائی ہیں، ان کی مزید تفصیل منسلک تکنیکی یادداشتِ تفاہم میں دی گئی ہے۔ ہم اس خط، MEFP، TMU اور متعلقہ ایگزیکٹو بورڈ دستاویزات کی اشاعت پر رضامند ہیں۔
مخلص،
محمد اورنگزیب؛ وفاقی وزیرِ خزانہ و محصولات جمیل احمد؛ گورنر، اسٹیٹ بینک آف پاکستان
واپس کریں