
(احتشام الحق شامی) بر صغیر پاک و ہند میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے”کالے انگریزوں“ کا ایک خصوصی طبقہ تیار کیا جو اپنی ثقافت و رسم و رواج کو کمتر اور انگریزی زبان و تعلیم،ٹائی اور پینٹ کوٹ سے لے کر کھانے کی میز پر کانٹے،چھری اور چمچ کے استعمال کو ہی اعلیٰ اقدار سمجھنے لگا اور یوں نفسیاتی نوآبادیات کی یہ غلامانہ شکل جسمانی قبضے سے بہت آگے نکل گئی۔آج خطہ میں استعمار کی یہ میراث پوری طرح سے موجود ہے جس کی چھاپ ہمارے انتظامی و تعلیمی نظام، قانون و عدلیہ کے ڈھانچے اور”پڑھے لکھے طبقے“ بلخصوص”باشعور افراد“ پر موجود ہے اور در حقیقت یہی کالے انگریز(بابو لوگ) گزشتہ74 برسوں سے ملکی پالیسیاں ہم پر مسلط کرتے چلے آ رہے ہیں،جن کا براہِ راست فائدہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے موجودہ مالکان کو پہنچ رہا ہے جس باعث ہمارے ملک کی نصف سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے اپنی زندگیاں گزار رہی ہے اور جن کے پاس کچھ جمع پونجی ہے وہ یہاں سے راہ فرار اختیار کرنے کی سوچ میں مبتلا ہیں بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گیا کہ اگر آج بارڈر کھول دیئے جائیں تو اس ملک میں صرف یہی کالے انگریز اور اشرافیہ رہ جائے(گو کہ ان کے بیوی بچے پہلے سے ہی ملک سے باہر ہیں)
غیر ملکی دوروں کے دوران یا غیر ملکی مہمانوں کی آمد کے موقع پر ہماری غلامی بھی اس وقت شرم سے پانی پانی ہو رہی ہوتی ہے جب ہماری اشرافیہ یا حکمران یعنی کالے انگریز، انگریزی زبان میں بات کرتے ہیں اور آگے سے اپنی مادری یا قومی زبان میں گفتگو کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ یا باشعور ہونے کا پیمانہ صرف یہ رہ گیا ہے کہ فر فر انگریزی بولنے پر عبور حاصل ہونا چاہیئے۔ اگر قومی غیرت کسی بازار میں دسیتاب ہوتی تو بھی اسے خریدنے کی کوشش نہیں کرتے کیونکہ غلامی در غلامی میں رہنے کو ہی ہم اپنی بقاء قبول کر چکے ہیں۔
ہم کون ہیں، ہمار ی سوچ کا معیار کیا ہے،ہم نے کیا کرنا ہے اورہماری منزل و مشن کیا ہے؟کیا ہم میں سے کسی کو یہ معلوم بھی ہے؟جواب نفی میں ہے۔
ایک ٹی وی چینل پر کچھ عرصہ قبل ہونے والی ایک عالمی کانفرنس کی جھلکیاں دیکھیں، جس کے بعد یہ کالم لکھنے پر مجبور ہوا۔کانفرنس میں روس،جاپان،جرمنی اورچین کے لیڈران اپنی اپنی قومی زبانوں میں تقریر کر رہے تھے لیکن ہمارے لیڈر انگریزی زبان میں تقریر کر کے دنیا کو یہ یقین دلا رہے تھے کہ ہم ابھی بھی آذاد نہیں ہوئے اور یہ کہ نوآبادیاتی حکمرانی کی تاریک میراث کے ہم وارث ہیں۔
واپس کریں