دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
خان آخر چاہتا کیا ہے؟
انصار عباسی
انصار عباسی
خبریں ہیں کہ امریکا میں مقیم کچھ پاکستانی ڈاکٹرز آج کل پھر پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ اُن کا مقصد عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مفاہمت پیدا کرنا ہے۔ وہ اس مقصد میں کامیاب ہو پاتے ہیں یا نہیں یہ سب سے اہم اور بنیادی سوال ہے۔ کوئی دو ماہ قبل بھی پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹرز اور بزنس مین آئے تھے، اُن کی یہاں اڈیالہ جیل میں عمران خان کے علاوہ اسلام آباد کے ایک اہم سرکاری افسر سے بھی ملاقاتیں ہوئی تھیں لیکن اس سے پہلے کہ ان ملاقاتوں کے نتائج کا انتظار کیا جاتا تحریک انصاف کے بیرون ملک مقیم کچھ یو ٹیوبرز اور پارٹی کے سوشل میڈیا نے انہی ڈاکٹروں کے خلاف محاذ کھڑا دیا اور اُن کی ٹرولنگ کی گئی۔ اب پھر سے کچھ لوگ پاکستان آ چکے لیکن اب تک اُن کی نہ عمران خان سے اور نہ ہی کسی اہم سرکاری عہدیدار سے ملاقات ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کے وہ رہنما جو اس حوالے سے باخبر ہیں وہ اس ہفتہ کے دوران ممکنہ طور پر کچھ نہ کچھ ہونے کے بارے میں پرامید ہیں۔ تاہم اصل سوال ایک ہی ہے اور اُس کا تعلق صرف اور صرف عمران خان سے ہے۔ کیا عمران خان اپنی گزشتہ دو تین سال کی وہ سیاست ،جس کا نشانہ فوج اور فوجی قیادت کے ساتھ ساتھ ملک کی معیشت رہی، ترک کرنے کیلئے تیار ہیںیا نہیں؟ یہ وہ اہم سوال ہے جس کا جواب ہی یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ کیا تحریک انصاف نارمل سیاست کی طرف لوٹنا چاہتی ہے یا گومگو کی اِسی موجودہ صورتحال میں رہنا چاہتی ہے جس میں وہ فوج اور فوجی قیادت کے ساتھ لڑنا بھی چاہتی ہے اور ساتھ ساتھ اُنہی کے ساتھ بات کرنےکیلئے بھی بے چین ہے۔ عمران خان کی خواہش ہے کہ وہ فوج سے بات کریں لیکن کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ فوج سے بات بھی کرنا چاہیں اور اُسی کے ساتھ فوج کی اعلیٰ قیادت کے خلاف محاذ بھی کھولے رکھیں۔ میں یہ کئی بار پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور اب پھر اس بات زور دینا چاہوں گا کہ عمران خان کو غصے اور نفرت کی بجائے، ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچ کر اپنا رویہ تبدیل کرنا ہو گا۔ اگر وہ انقلاب لانا چاہتے ہیں تو فیصلہ کریں کہ اُن کا رستہ صرف اور صرف انقلاب ہے اور اُس صورت میں نہ فوج سے اور نہ ہی حکومت سے کوئی بات ہو سکتی ہے۔ گزشتہ دو تین سال میں انقلاب کی کوشش بار بار کی جا چکی لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا بلکہ خود عمران خان اور انکی پارٹی کیلئے مشکلات بڑھتی گئیں۔اگر بات چیت سے مسئلہ حل کرنا ہے تو پھر اپنے غصے، اپنےالفاظ پر قابو پانے کے علاوہ خان صاحب کو اپنے سوشل میڈیا اور بیرون ملک بیٹھے رہنمائوں اور یوٹیوبرز کوبھی شٹ اپ کال دینا ہو گی۔ ایک ہی وقت میں اگر خان صاحب فوج سے بات چیت کے خواہش مند بھی ہوں ،اپنے سوشل میڈیا کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کریں اور اُن
کے ٹرینڈز کے مطابق اپنی سیاست کو چلائیں تو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگ اور پاکستان کی شاندار کامیابی کے بعد ویسے ہی تحریک انصاف کیلئے آپشنز محدود ہو چکے ہیں۔ امریکا سے آنے والے ڈاکٹرز کی کوشش ایک اچھا اقدام ہے لیکن مسئلہ اُس وقت تک حل نہیں ہو گا جب تک عمران خان کوئی فیصلہ نہیں کرتے۔اس سلسلے میں تحریک انصاف کی قیادت کو چاہیے کہ وہ ڈرنے کی بجائے عمران خان سے وہ بات کریں جو وہ آپس میں کرتے ہیں۔ یعنی بات چیت حکومت سے بھی کریں اور اگر ممکن ہو تو فوج سے بھی۔ بات چیت کا دروازہ بند مت کریں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ عمران خان خود فوج یا فوجی قیادت کےخلاف بیان بازی سے رک جائیں، اپنے سوشل میڈیا،بیرون ملک بیٹھے رہنمائوں اور یو ٹیوبرز کو بھی ایسا کرنے سے روکیں۔ انقلاب لانے کی کوششیں کر چکے، اسلام آباد پر چڑھائی کے تجربے بھی کر لیے، سڑکوں پر بھی نکل چکے، جلسے جلوس بھی بہت ہو گئے لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ سیاست میں اختلاف کریں لیکن سیاست کو دشمنیوں میں مت بدلیں۔ اپنے سوشل میڈیا کی بھی ذہن سازی کریں کہ وہ بدتمیزی، گالم گلوچ، جھوٹ ، بہتان تراشی اورنفرت کو چھوڑے۔ جو رہنما اور جو پارٹی اپنے آپ کو سب سے زیادہ مقبول سمجھتے ہیں اُنہیں قوم کو جوڑنا چاہیے نہ کہ نفرت اور تقسیم کی سیاست پر انحصار کرنا چاہیے۔ جتنا جلدی عمران خان اور تحریک انصاف یہ بات سمجھ لیںگے اتنا ہی اُن کیلئے بہتر ہو گا۔
واپس کریں