
بھارتی دفاعی تجزیہ نگار پروین ساہنی کے مطابق، چین نے کشمیر پر خاموشی سے ذمہ داری لے لی ہے، اور اب کھل کر پاکستان کی حمایت کر رہا ہے۔ بات صرف سفارتی بیانات تک نہیں رہی، چینی فوجی قیادت، پاکستان کے ساتھ مل کر نہ صرف مشقیں کر رہی ہے بلکہ دفاعی حکمت عملی بھی شیئر کر رہی ہے۔ صدر شی جن پنگ نے خود کہا کہ وہ کشمیر کا مسئلہ سنبھالیں گے، اور اب وہ اپنی بات پر عمل کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
بھارت نے جب اگست 2019 میں کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کی، تو چین نے فوراً اعتراض کیا۔ اور پھر چینی قیادت نے واضح طور پر بتایا کہ وہ نہ صرف اکشے چن بلکہ کشمیر کے پورے مسئلے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ چینی صدر نے بھارت کو جنوبی ایشیا میں امن کے لیے "تین طرفہ تعلقات" کی بات کی، یعنی چین، بھارت اور پاکستان کے درمیان، اور کشمیر کو اس تعلق کا مرکز قرار دیا۔ لیکن بھارت نے یہ بات مسترد کر دی۔
چین صرف باتوں تک محدود نہیں رہا۔ اس نے لداخ میں اپنی فوجیں اتاریں، پاکستان کو دفاعی مدد دی، اور دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تعاون کو ایک نئی سطح پر لے گیا۔ اب تو پاکستانی افسر چینی فوج کے آپریشنل دفاتر میں بیٹھے ہوتے ہیں۔
چین نے صاف کہہ دیا ہے کہ اگر انڈیا سندھ طاس معاہدے کو روکتا ہے یا پاکستان کو نقصان دیتا ہے، تو چین مداخلت کر سکتا ہے، چاہے انڈیا کو پسند ہو یا نہ ہو۔ چین یہ سب کچھ اس لیے کر رہا ہے کہ اسے یقین ہو گیا ہے کہ بھارت اب نہ مذاکرات میں دلچسپی رکھتا ہے، نہ امن میں۔ اور جب تجارت کی بات آتی ہے تو چین کو بھارت کی طرف سے صرف رکاوٹیں ہی نظر آتی ہیں۔
اب کشمیر کا معاملہ چین کی اسٹریٹیجک پالیسی کا حصہ بن چکا ہے۔ بھارت اب صرف پاکستان سے نہیں بلکہ چین سے بھی کشمیر پر بات کرنے سے کترا رہا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب چین سائیڈ پر نہیں بلکہ میدان میں آ چکا ہے۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کشمیر اب صرف پاکستان کا نہیں، چین کا بھی مسئلہ بن چکا ہے۔ اور یہ نیا منظرنامہ بھارت کے لیے بڑا دردِ سر بننے والا ہے۔
واپس کریں