طاہر راجپوت
حالیہ جھڑپوں اور سرحدی کشیدگی نے جنوبی ایشیا کو ایک بار پھر خطرناک اور مہنگے اسلحے کی دوڑ کی طرف دھکیل دیا ہے۔ پاکستان اور بھارت دو ایٹمی طاقتیں ایک بار پھر دفاعی صلاحیت میں سبقت حاصل کرنے کی ضد میں مبتلا نظر آتی ہیں، اور دونوں ممالک کے ریاستی بیانیے میں جنگی جنون، حب الوطنی کے نام پر پروپیگنڈہ اور عسکری اخراجات کا جواز ایک نئی شدت سے ابھرا ہے۔
اس سارے تناظر میں امریکہ کا کردار بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، جو بظاہر ثالث کا لبادہ اوڑھے، درپردہ اسلحے کی منڈی گرم رکھنے میں مصروف ہے۔ واشنگٹن کی خارجہ پالیسی میں توازن سے زیادہ اسٹریٹیجک مفادات کو فوقیت حاصل ہے، جس کا فائدہ اسے ہتھیاروں کی فروخت، خطے میں مستقل موجودگی، اور چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی صورت میں ملتا ہے۔
پاکستان میں سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے مطالبہ کیا کہ فوج کا بجٹ دو گنا کیا جائے اور ایئر فورس سمیت تمام افواج کی تنخواہوں میں اضافہ ہو۔ دوسری طرف بھارت بھی جدید سٹیلتھ ٹیکنالوجی سے لیس لڑاکا طیاروں پر بھاری سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے۔ یعنی مزید اربوں ڈالر کی بھاری رقم جنگ منصوبوں پر خرچ ہو گی۔
یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دونوں ممالک میں غربت، بیروزگاری، اور مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔حالیہ دنوں بھارت میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا، جہاں ایک غریب خاندان کے سات افراد نے خودکشی کر لی، کیونکہ وہ قرضوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکے۔ پاکستان میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ لوگ خوراک، روزگار، بجلی کے بلوں اور دیگر بنیادی ضروریات کے لیے ترس رہے ہیں۔
یہ سوال اہم ہے کہ کیا ٹینک، میزائل، اور طیارے ہمارے بچوں کو تعلیم، صحت اور روزگار دے سکتے ہیں؟
کیا ہم اس خطے کو اسلحے کی نمائش گاہ بنانا چاہتے ہیں، یا ایک پرامن اور خوشحال معاشرہ؟
خطے کو تباہی سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت کی قیادت عقل و فہم سے کام لے۔کشمیر اور پانی جیسے بنیادی تنازعات پر با مقصد مذاکرات شروع کیے جائیں اور ایک طویل امن معاہدہ طے پاۓ جس سے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ ہو۔
یورپ نے بھی دو عظیم جنگوں کی بھاری قیمت چکائی، مگر اس کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ انہوں نے نیٹو، یورپی یونین، اور معاشی اتحاد بنا کر خطے میں امن، ترقی، اور مشترکہ مفاد کا نظام تشکیل دیا۔ جنوبی ایشیا بھی ایسا ہی کر سکتا ہے اگر وہ چاہے۔ چین، نیپال، بھوٹان، بنگلہ دیش، سری لنکا، اور افغانستان جیسے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر ایک جنوبی ایشیائی اتحاد، ایک چارٹر آف پیس اینڈ ڈیویلپمنٹ، اور مشترکہ مسائل پر مکالمہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے قیادت کو عظمتِ کردار اور وژن کی ضرورت ہے۔
بھارت، جو کہ اس خطے کی بڑی طاقت ہے، اسے ماضی کو بھلا کر کشادہ دلی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ حالیہ کشیدگی نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کوئی تر نوالہ نہیں۔ خود بھارت کی حزبِ اختلاف نے تسلیم کیا ہے کہ مودی حکومت کی شدت پسند پالیسیوں نے نہ صرف خطے میں سفارتی تنہائی پیدا کی ہے بلکہ نیپال، بنگلہ دیش، اور برما جیسے قریبی ممالک بھی اس کے ساتھ کھڑے ہونے سے گریزاں ہیں۔یہ سب مودی سرکار کی تنگ نظری، ہندوتوا سوچ، اور داخلی سیاست کو جنگی ہیجان سے زندہ رکھنے کی پالیسی کا شاخسانہ ہے، جس سے بھارت کے اپنے ہی شہری اور ہمسائے پریشان ہیں۔
یہ سب مودی سرکار کی انتہا پسندانہ سوچ کا نتیجہ ہے، جس سے اس کے اپنے ہمسایے تنگ آ چکے ہیں۔خطے میں امن، تجارت، اور انسانی ترقی کی سبیل بنانا اب وقت کی اہم ضرورت ہے۔یہ خطہ دو ارب سے زائد انسانوں کا گھر ہے۔اگر ہم جنگ کے بجائے مذاکرات کو ترجیح دیں، تو یہ علاقہ دنیا کی طاقتور ترین معاشی اور سماجی قوت بن سکتا ہے۔اب وقت ہے کہ ہم نفرت، ہتھیاروں اور شدت پسندی سے آگے نکل کر عوامی فلاح، تعلیم، صحت اور روزگار کی طرف توجہ دیں۔
دوسری طرف پاکستان کو بھی سوچنا ہو گا کہ آیا ہر فوجی خرچے کو حب الوطنی کی چادر میں لپیٹ کر پیش کرنا عوام کے حقیقی مسائل سے فرار تو نہیں؟ عوام کو تعلیم، روزگار، خوراک اور صحت کی سہولیات درکار ہیں، نہ کہ اسلحے کے ڈھیر۔ جب بچے اسکول سے باہر ہوں، ہسپتال دواؤں سے خالی ہوں، اور نوجوان روزگار سے محروم ہوں، تو میزائلوں کی چمک آنکھوں کو چندھیا ضرور سکتی ہے، مگر پیٹ نہیں بھر سکتی۔
جنوبی ایشیا دو ارب انسانوں کا خطہ ہے، جہاں دنیا کے سب سے زیادہ نوجوان بستے ہیں، جہاں ہر چوتھا بچہ غذائی قلت کا شکار ہے، اور جہاں وسائل کی منصفانہ تقسیم ابھی خواب ہے۔ اگر ہم نے جنگ کے بجائے امن، اور نفرت کے بجائے دوستی کو ترجیح نہ دی، تو ہم اپنے ہی مستقبل کو جلا ڈالیں گے۔ ہمیں اس خطے کو جنگ کی منڈی نہیں، بلکہ ترقی کا مرکز بنانا ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم بارود کے بجائے کتاب، گولی کے بجائے دوا، اور دشمنی کے بجائے رفاقت کی بات کریں۔ ہمیں اپنے بچوں کے لیے ایک ایسا کل بنانا ہے جہاں سرحدیں نفرت کی علامت نہیں، بلکہ ثقافتوں کی گزرگاہ ہوں۔
دونوں ملکوں کی عوام پس رہی ہے۔ عوام بجلی کے بلوں، دوائی، آٹے، اور روزگار کے لیے ترس رہے ہیں۔ خطے کے عوام سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا جنگی طیارے، میزائل، اور ٹینک ہمارے بچوں کو تعلیم، صحت اور روزگار دے سکتے ہیں؟ کیا یہ خطہ بارود سے بھرے گودام میں تبدیل ہونے کے لیے بنا ہے، یا ایک پرامن اور خوشحال سماج کا خواب اب بھی باقی ہے۔؟
واپس کریں