دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نیو ایسٹ انڈیا کمپنی اور ہم
No image (احتشام الحق شامی)قدرتی وسائل،ذحائر یا قیمتی معدنیات طاقت یا بدمعاشی کے بل بوتے پر حصول کی ماضی قریب میں شروعات عراق کی جانب سے کی گئی تھی جب عراقی افواج نے نیو ایسٹ انڈیا کمپنی(امریکہ) کی شہ پر اپنے ہمسایہ ملک کویت میں داخل ہو کر وہاں تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے یا انہیں لوٹنے کی کوشش کی تھی۔اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ دنیا کے طاقتور ممالک کو اپنے جغرافیہ میں اضافہ کرنے سے زیادہ دلچسپی مختلف ممالک میں موجود قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے یا انہیں کسی بھی طریقے سے حاصل کرنے میں ہے اور اس حوالے سے عالمی طاقتوں کے اتحاد یا امریکہ یا نیو ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہر اس ملک میں دخل اندازی کرنا شروع کی جہاں زیر زمین قیمتی قدرتی وسائل و معدنیات موجود ہیں۔خلیجی ریاستوں اور افریقی ممالک سے لے کر یوکرائین تک دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح عالمی طاقتیں مختلف طریقوں سے اپنے مفاد پرستانہ خونی کھیل میں مسلسل مصروفِ عمل ہیں اور دنیا کے دیگر ممالک کے قدرتی وسائل لوٹنے کے لیئے نوبت اب ایٹمی جنگ تک آن پہنچی ہے۔
عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق پاکستان بلخصوص صوبہ بلوچستان میں کھربوں ڈالر کے دنیا کے قیمتی اور نایاب ترین قدرتی زخائر وافر مقدار میں موجود ہیں،جن کو استعمال میں لا کر نہ صرف ملک کا تمام تر بیرونی قرضہ ختم کیا جا سکتا ہے بلکہ ملک پھر قرضہ دینے کی پوزیشن میں آ سکے گا۔جس کے بعد پاکستان اپنی تمام تر پالیسیاں آذادنہ طور پر بنانے میں مکمل آذاد ہو گا اور دفاعی لحاظ سے مذید طاقت ور بھی لیکن ہم شائد نیو ایسٹ انڈیا کمپنی کا انتظار کر رہے ہیں جو کسی بہانے سے یہاں آئے اور ہمارے قیمتی قدرتی زخائر کو لوٹ لوٹ کر اپنے بحری اور ہوائی جہازوں میں اپنے ملک منتقل کرے بلکل جیسے اولڈ ایسٹ انڈیا کمپنی نے پہلے برصغیر(پاک و ہند) میں کیا تھا کیونکہ ہم نے خود کچھ بھی نہیں کرنے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔
ملک بیرونی قرضوں کی دلدل میں ڈوبا ہوا ہے، ہمیں بیرونی قرضوں کی سودی ادائیگیوں پر 9770 ارب روپے ادا کرنے پر کوئی تکلیف نہیں اورملک کی آدھی سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے کیونکہ روزگار کے مواقع دستیاب نہیں ہیں،جن کے کچھ جمع پونجی ہے وہ اسے خرچ کر بیرونِ ممالک نکلنے کی کوششوں میں ہیں۔
دنیا کے قیمتی قدرتی زخائر، معدنیات اور تعلیم یافتہ نوجوان افرادی وقت ہونے کے باوجود اگر ہم مذکورہ صورتِ حال سے دوچار ہیں تو بقول شاعر یہی کہا جا سکتا ہے کہ قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں،رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
خدا ہمارے حال اور مستقبل پر اپنا خصوصی کرم فرمائے۔
واپس کریں