طاہر راجپوت
انسان فطرتاً سیکھنے والا ہے، لیکن جب سچ اس کی پسندیدہ رائے کے خلاف ہو، تو وہ سچ سے منہ موڑ لیتا ہے۔یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں علم کی راہ روک دی جاتی ہے، اور "تصدیقی تعصب" جنم لیتا ہے؛ یعنی انسان صرف وہی سچ مانتا ہے جو اس کے ذہن کو راس آئے۔
اس اصطلاح کی تاریخ:
کنفرمیشن بایس کی اصطلاح کو پہلی بار 1960 میں Cognitive Psychologist Peter Wason نے پیش کیا۔
انہوں نے ایک مشہور تجربہ کیا جسے Wason's Rule Discovery Task کہا جاتا ہے، جس میں شرکاء کو ایک عددی ترتیب دی گئی:
مثلاً: 2 – 4 – 6
شرکاء سے کہا گیا کہ وہ اس ترتیب کی "قانونی منطق" تلاش کریں۔ بیشتر افراد ایسے عدد چنتے رہے جو ان کے ابتدائی مفروضے کی تصدیق کرتے تھے، مگر مخالف یا مختلف ترتیب آزمانے سے گریز کرتے رہے۔
یہیں سے واضح ہوا کہ انسان سچ کی تلاش میں نہیں ہوتا، بلکہ وہ معلومات چُنتا ہے جو اس کے ذہن میں پہلے سے موجود مفروضے کو سچ ثابت کرے۔
تصدیقی تعصب دراصل انسانی ذہن کا "Cognitive Shortcut" ہے۔دماغ چونکہ ہر وقت لاکھوں معلومات کا سامنا کرتا ہے، اس لیے وہ "اپنے بنے ہوئے سانچے" کے مطابق فیصلہ کرنا آسان سمجھتا ہے۔
یہ تعصب دماغ میں کاگنیٹو Dissonance یعنی (ذہنی تضاد) سے بچنے کے لیے پیدا ہوتا ہے اور ایگو Protection Mechanism کے طور پر کام کرتا ہے, اور انسانی شناخت کو "خطرے" سے محفوظ رکھنے کے لیے، مخالف خیالات کو خود بخود جھٹلا دیتا ہے۔
تصدیقی تعصب آج کے پولرائزڈ سیاسی معاشروں کی جڑ ہے۔سوشل میڈیا اور نیوز الگورتھمز اس تعصب کو مزید ایندھن فراہم کرتے ہیں، جس سے؛
1. فیک News تیزی سے پھیلتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کے تعصبات کو چیلنج نہیں کرتی بلکہ ان کی تصدیق کرتی ہے۔
2. لوگ "Echo Chambers" میں بند ہو جاتے ہیں، جہاں صرف اپنی سوچ سنائی دیتی ہے۔
3. سیاسی جماعتیں، لیڈر، اور میڈیا ہاؤسز اسی تعصب کو کیش کرواتے ہیں، یعنی وہ وہی بیانیہ بیچتے ہیں جو اُن کے ووٹرز سننا چاہتے ہیں۔
اس سے مزید سوال پیدا ہوتا ہے کہ؛ انسان "State of Denial" میں کیوں رہتا ہے؟
اسٹیٹ آف ڈینیل' دراصل ایک دفاعی نفسیاتی مقام ہے۔جب کسی شخص کو ایسا سچ بتایا جائے جو اس کے عقیدے، شناخت، یا عزتِ نفس کو براہِ راست چیلنج کرے، تو وہ اس سچ کو قبول کرنے کے بجائے رد کر دیتا ہے۔
یہ انکار؛
*ذہنی سکون کو بچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
*معاشرتی دباو سے بچنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
*اور اکثر اوقات علمی سستی یا علم دشمن ماحول کی پیداوار ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایک پڑھا لکھا انسان بھی بعض اوقات خرافات کا قائل ہوتا ہے، مگر سائنسی دلیل پر شک کرتا ہے۔
شدت پسندی، سیاسی اندھا دھند حمایت، اور سازشی نظریات سب تصدیقی تعصب کے سائے میں پنپتے ہیں۔
کورونا وائرس کے دوران ویکسین مخالف تحریکیں، Confirmation Bias کی واضح مثالیں ہیں۔
آج کا انسان ہر چیز کو "اپنے نظریے" کے مطابق دیکھنے کا عادی ہو گیا ہے، یہاں تک کہ علم بھی ایک ہتھیار بن گیا ہے، نہ کہ سچ کی تلاش۔
"تصدیقی تعصب" ایک نفسیاتی خامی نہیں، بلکہ انسانی ذہن کی ایک فطری جھکاؤ ہے۔اصل مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب یہ تعصب علم، معاشرت، اور سچائی کی راہ میں حائل ہو جاتا ہے۔
سچ کو سننے کے لیے انسان کو پہلے اپنے اندر کا شور بند کرنا پڑتا ہے۔ عقلمندی کا پہلا قدم یہ مان لینا ہے کہ تمہارا ذہن بھی تمہیں دھوکہ دے سکتا ہے۔"
واپس کریں