دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ابراہیم تراورے اور تصویر کا دوسرا رخ
No image (احتشام الحق شامی)حال ہی میں عالمی شہرت پانے والے افریقی ملک برکینا فاسو کے فوجی کپتان ابراہیم تراورے اپنے سینئر فوجی افسران کے خلاف بغاوت کر کے اقتدار میں آئے ہیں جو ایک پراسرار امر ہے۔37 سالہ افریقی باغی کپتان صاحب نے امریکہ،فرانس بلکہ مغرب کو چیلنج کیا ہے کہwe will fight اس فلمی نماء ڈائلاگ سے یاد آتا ہے کہ جب 7اکتوبر2023 کو عالمی شہرت یافتہ تنظیم حماس کے انقلابیوں نے اسرائل پر میزائل حملے کر دیئے جس کے نتیجے میں اب تک تقریباً80 ہزار سے زائد بے گناہ اور معصوم فسلطینی شہید ہو چکے ہیں اور غزہ کھنڈر بن چکا ہے جبکہ حماس کے انقلابی لیڈر مختلف ممالک میں فرار ہو چکے ہیں،تو اس وقت جذباتی الباکستانیوں سمیت کئی دیگر مسلم ممالک نے اللہ اکبر کے نعرے بلند کیئے تھے کہ اسرائیل اب صفہ ہستی سے مٹنے والا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حقائق منظرِ عام پر آتے ہیں۔
کپتان ابراہیم تراورے صاحب بظاہر تو اپنے ملک کے قدرتی ذخائر جن میں سونے کی بے پناہ کانیں اور پلاٹینیم کے وافر زخائر بھی موجود ہیں کو بچانے کے ایجنڈا سامنے لائے ہیں اور ساتھ میں مغرب کو للکار رہے ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا ان کے پاس اکیلے جنگ لڑنے کے لیئے وہ جدید ٹیکنالوجی اور وسائل دستیاب ہیں جو مغرب کے پاس موجود ہیں اور کسی ممکنہ جنگ کے دوران کیا ان کپتان صاحب کے پاس اپنے عوام کو بچانے کے لیئے کیا کوئی مناسب بندوبست یا پلاننگ ہے؟
صرف قدرتی وسائل و معدنیات کا مالک ہونا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ ان قیمتی قدرتی زخائر کو زمین سے باہر نکالنے کا ہنر اور ٹیکنالوجی بھی موجود ہونی چاہیئے۔پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی مثال ہی لے لیجئے،صوبہ دنیا کے قدرتی زخائر سے مالا مال ہے لیکن ان زخائر کو زمین نکالنے کے لیئے ہمارے پاس نہ تو مشینری ہے اور ہی مطلوبہ ہنر مند افرادی قوت اور ہم مغربی ٹیکنالوجی کے مرہونِ منت ہیں اسی طرحباغی کپتان ابراہیم تراورے کو لا محالہ اپنے ملک کے زخائر کو زمین سے نکالنے لے لیئے جو ٹیکنالوجی درکار ہو گی اسے انہیں اپنے دشمن یعنی مغرب سے ہی لانا ہو گا۔
ابراہیم تراورے نے ملک میں مغربی ممالک کے سفارت خانے بند کروا دیئے ہیں لیکن ان کی کامیابی کا انحصار ان کے سیاسی، عسکری، اور معاشی فیصلوں کے نتائج پر ہے۔ اگر وہ اپنے ملک میں جاری اسپانسرڈ دہشت گردی پر قابو پا کر معاشی خودمختاری اور عوامی بہبود کے اپنے وعدوں کو پورا کرتے ہیں، تو وہ کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار کا حاصل ہونا، داخلی خطرات اور بین الاقوامی دباؤ ان کے لیے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ کچھ لوگ انہیں ایک انقلابی رہنما کے طور پر دیکھتے ہیں، جبکہ دیگر ان کے طریقہ کار کو غیر جمہوری سمجھتے ہیں تا ہم حتمی کامیابی کا فیصلہ وقت اور ان کے اقدامات کے نتائج کریں گے۔
ابھی حال ہی میں ابراہیم تراورے نے روسی صدر سے ملاقات کی ہے،اگر یہ کپتان صاحب چینی قیادت کو بھی اپنے اعتماد میں لیں سکیں تو پھر کسی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے قدرتی وسائل بچانے کے لیئے مغرب سے لڑ سکتے ہیں لیکن ہمیں خدشہ ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ کپتان صاحب بھی حماس کی طرح کسی مغربی ملک پر میزائل چلا کر اپنی رلی کھلی عوام پر فلسطینیوں کی طرح زمین کروا دیں اور ان کے قدرتی زخائر دھرے کے دھرے رہ جائیں، بعد میں پتہ چلے کہ انہی کپتان صاحب کو اپنی فوج سے بغاوت کرنے کے سنگین جرم میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا ہے اور پھر معلوم پڑے کہ ان کے ملک پرUNO کی فوج اتر چکی ہے جس نے ان ملک کے ساتھ ساتھ ان تمام قیمتی زمینی زخائر کا کنٹرول بھی حاصل کر لیا ہے جنہیں باغی کپتان صاحب اپنی ملکیت سمجھتے تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دو بار ان کے خلاف قاتلانہ حملوں کی کوشش ہو چکی ہے، جو ان کے اقتدار کے لیے خطرے کی نشاندہی کرتا ہے۔
واپس کریں