
اسلام کے خلاف مغرب کی سٹریٹیجک جنگ:رات کے اندھیرے میں دھماکوں کی آوازیں، آسمان پر گونجنے والے شعلے، ملبے تلے دبی سیکڑوں لاشیں۔۔۔ یہ آج غزہ کی حقیقت ہے۔ کتنی بار جنگ بندی کا اعلان ہوا، کتنی بار امن کی امید پیدا ہوئی لیکن ہر بار اسرائیل نے اس امید کو خاک میں ملا دیا۔ یہ جنگ صرف زمین کے لیے نہیں ہے، نہ صرف دو قوموں کے درمیان تنازع ہے- اس کی اصل میں ایک طویل سیاسی، اقتصادی اور تہذیبی تنازعہ ہے۔
امریکہ اسرائیل کو نہ صرف اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے۔ یہ مشرق وسطیٰ میں اس کے اسٹریٹجک ہتھیاروں میں سے ایک ہے۔ ہر اسرائیلی جارحیت، ہر جنگ بندی کی خلاف ورزی، انسانیت کے خلاف ہر جرم، ہر چیز کی جڑیں مغربی دنیا کی منصوبہ بند حمایت سے جڑی ہوئی ہیں۔ کیا یہ جنگ ایک جدید صلیبی جنگ ہے؟ کیا یہ واقعی "تہذیبوں کا تصادم" ہے جس کی پیشین گوئی سیموئل پی ہنٹنگٹن نے کی تھی؟ ہمیں ان سوالات کے جوابات اس وقت ملتے ہیں جب ہم مشرق وسطیٰ کے خونی باب کی گہرائی میں جھانکتے ہیں۔
کیا غزہ کا یہ خونی باب کبھی ختم ہوگا؟ تاریخ بتاتی ہے کہ قابض طاقت کا زوال کبھی کبھار ہوتا ہے لیکن یہ زوال آسانی سے نہیں آتا۔ جب تک مغربی دنیا اس اسرائیلی جارحیت کی حمایت کرتی رہے گی، جب تک امریکہ تیل کے لیے مشرق وسطیٰ میں موجود رہے گا، یہ کشمکش جاری رہے گی۔ لیکن جیسا کہ تاریخ نے ہمیں سکھایا ہے، ہر سلطنت کا زوال ہوتا ہے۔ آج نہیں شاید کل نہیں لیکن ایک دن غزہ کے ملبے تلے قابضین کے خوابوں کی قبریں دب جائیں گی۔
مشرق وسطیٰ کو کنٹرول کرنا امریکہ کے دیرینہ منصوبے کا حصہ ہے۔ 1948 میں ریاست اسرائیل کے قیام کے بعد سے امریکہ نے اسے اپنا اہم اتحادی بنا رکھا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ مشرق وسطیٰ دنیا کے اہم ترین جیو پولیٹیکل خطوں میں سے ایک ہے اور اس کی بڑی وجہ تیل اور دیگر قدرتی وسائل ہیں۔
امریکہ کبھی نہیں چاہتا تھا کہ مشرق وسطیٰ ایک آزاد اور طاقتور خطہ بنے۔ لہذا، انہوں نے اسرائیل کو ایک "فارورڈ بیس" یا اسٹریٹجک گڑھ کے طور پر استعمال کیا، جو پورے خطے کو غیر مستحکم کرے گا اور امریکی فوجی اور اقتصادی تسلط کو برقرار رکھنے میں مدد کرے گا۔
سیموئیل پی ہنٹنگٹن نے اپنے عالمی مشہور "تہذیبوں کا تصادم" تھیوری میں کہا ہے کہ کمیونزم کے زوال کے بعد دنیا کا اصل تصادم مغربی دنیا اور اسلام کے درمیان ہوگا۔ ان کے مطابق اسلام اور مغربی تہذیب ایک ناگزیر تصادم کی طرف بڑھ رہے تھے کیونکہ ان کی اقدار، نظریات اور طرز زندگی میں بنیادی فرق ہے۔
ہنٹنگٹن کا نظریہ آج غزہ، شام، عراق، افغانستان اور ہر مسلم سرزمین میں حقیقت میں جھلک رہا ہے۔ مغربی دنیا اسلام کو "دوسرے" کے طور پر قائم کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے اخلاقی اور تزویراتی جواز حاصل کر سکے۔ اسی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادی ہمیشہ مسلم ممالک کو کمزور رکھنا چاہتے ہیں اور اسرائیل کے ذریعے اس مذموم مقصد کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔
کیا غزہ پر اسرائیل کا جاری تشدد صرف علاقے کے لیے ہے؟ یا یہ ایک بڑی صلیبی جنگ ہے جس میں مذہب، سیاست اور معاشیات شامل ہیں؟
اسرائیل کی طرف سے ہر جنگ بندی کی خلاف ورزی ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔ جب بھی بین الاقوامی دباؤ بڑھتا ہے، وہ جنگ بندی پر بات چیت کرتے ہیں۔ پھر چند دنوں کے بعد ایک نیا حملہ شروع ہو جاتا ہے۔ گویا یہ ان کی نئی جنگی حکمت عملی بن گئی ہے۔
مغربی دنیا بالخصوص امریکہ ہر بار اسرائیل کے جرائم پر پردہ ڈالتا ہے۔ جب بھی اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف کوئی قرارداد آتی ہے تو امریکہ بغیر سوچے سمجھے اپنا ویٹو پاور استعمال کرتا ہے۔ یہ دوغلا پن ثابت کرتا ہے کہ امریکہ کبھی بھی مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن نہیں چاہتا۔ ان کا مفاد ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے ذریعے خطے کو غیر مستحکم کرنا ہے۔
غزہ ہر روز ملبے کا ڈھیر بنتا جا رہا ہے لیکن فلسطینی عوام کی مزاحمت نہیں رکتی۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ صرف ہتھیاروں کی جنگ نہیں ہے، یہ وجود کی جنگ ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ مزاحمت کب تک چلے گی؟ اسرائیل کی مسلسل جبر کی پالیسی، مغربی دنیا کی دوغلی پالیسی، مسلم دنیا کی خاموشی، سب مل کر کیا فلسطین کی آزادی ناممکن ہو رہی ہے؟
یہ آج کی حقیقت ہے۔ غزہ کا ہر تباہ شدہ گھر، ہر تباہ شدہ ہسپتال، ہر مردہ بچہ یہ سب ثابت کرتے ہیں کہ یہ جنگ ایک جدید صلیبی جنگ ہے، جہاں ایک طرف تباہی مچاتی ہے اور دوسری طرف زندہ رہنے کے لیے لڑتی ہے۔
کیا غزہ کا یہ خونی باب کبھی ختم ہوگا؟ تاریخ بتاتی ہے کہ قابض طاقت کا زوال کبھی کبھار ہوتا ہے لیکن یہ زوال آسانی سے نہیں آتا۔ جب تک مغربی دنیا اس اسرائیلی جارحیت کی حمایت کرتی رہے گی، جب تک امریکہ تیل کے لیے مشرق وسطیٰ میں موجود رہے گا، یہ کشمکش جاری رہے گی لیکن جیسا کہ تاریخ نے ہمیں سکھایا ہے، ہر سلطنت کا زوال ہوتا ہے۔ شاید آج نہیں، شاید کل نہیں، لیکن ایک دن قابضین کے خوابوں کی قبر غزہ کے ملبے تلے دب جائے گی۔
یہ مضمون انگریزی نیوز ویب سائٹ پاکستان ٹو ڈے میں شائع ہوا ہے ۔ترجمہ و ترتیب:احتشام الحق شامی
واپس کریں