دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کون غلط،کون صحیح؟
No image موجودہ حکومتی و سیاسی نظام کے حامی جذباتی قسم کے ہمنواوں سے مختصر سی گزارش کرنے کی جسارت کروں گا کہ یہ بات ضرور اپنے ذہن میں رکھیں کہ سابقہ حکومتی و سیاسی نظام چلانے والوں نے موجودہ حکمرانوں کے حوالے سے،عمران ریاض خان اور ان کے ہم خیالوں کو اپنے دفاتر میں بلا کر”سرخ نشان والی فائلیں“ دکھائی تھیں اور بتایا تھا کہ یہ لوگ(موجودہ حکمران) ٹھیک نہیں مطلب کرپٹ اور ریاست مخالف وغیرہ ہیں لہذا ان کے خلاف بیانیہ بنایا جائے تا کہ نیازی رجیم کو حکومت چلانے میں اپوزیشن کی جانب سے مشکلات پیش نہ آئیں۔وقت تیزی سے بدلا اورکایا ہی پلٹی گئی یعنی غلط لوگ،ٹھیک ہو کر حکومت میں آ گئے۔
اب سابقہ اچھے والے حکومتی نظام کے خلاف بیانیہ بنایا گیا ہے اور انہیں غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے(گو کہ ان کی سنگین غلطیاں ہیں) اور موجودہ(یعنی سابقہ غلط لوگ) اب ٹھیک ہیں۔
عرض کرنے کا مقصد ہے کہ کل کا صحیح آج غلط ہے اور کل کا غلط آج صحیح ہے۔ عمران ریاض خان اور ان کے ہم خیالوں کا اصل میں رونا یہی تھا کہ کل کے کرپٹ یک دم پوتر کیسے ہو گئے؟
یہاں مقصد کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں بلکہ یہ بنیادی سا سوال اٹھانا ہے کہ جنہیں کل تک کرپٹ اور نہ جانے کیا کیا قرار دیا جاتا رہا،ان کی سرخ فائلیں صحافیوں کو بلا بلا کر دکھائی جاتی رہیں کہ دیکھو یہ لوگ کتنے بد معاش ہیں اور پھر انہی کرپٹ اور بدمعاشوں کو ریاستی سسٹم میں لے آنا اور جو پہلے نیکو کار تھے انہیں کرپٹ قرار دے دینا،کہاں کی حکمت عملی ہے اور کیسی قومی و ریاستی فیصلہ سازی ہے؟
عمران ریاض خان اور ان کے ہم خیال گو کہ اب تو کھل کر ریاست مخالف بیانیہ چلا رہے ہیں لیکن جب انہیں فائلیں دکھائی گئیں تھی اور اس کے فوراً بعد جب برے والے اچھے ہو گئے اور اچھے والے برے ہو گئے تو معمولی سی بھی سمجھ بوجھ رکھنے والے اور عمران ریاض و ہم خیالوں کا پاگل بننا ضرور بنتا تھا۔
حاصل وصول یہ ہوا کہ پاکستانی سیاسی و حکومتی نظام(جیسا بھی لولا لنگڑا ہے) دیکھ کر جذباتی ہونے کی بلکل بھی ضرورت نہیں،یہاں بروں کواچھا بناتے اور اچھوں کا برا بناتے دیر نہیں لگتی۔سب کی سرخ فائلیں ہمہ وقت ٹیبل پر موجود رہتی ہیں۔
رہے گا نام بس میرے اللہ کا۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
واپس کریں