
عمران خان کا مسئلہ ہر گز یہ نہیں کہ وہ اصولوں پر ڈٹے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ وہ فاشسٹ ہیں۔ انہیں اپنے سوا کسی کا کردار گوارا نہیں۔ ان کے خیال میں تمام سیاسی جماعتیں چور ہیں۔ ان کا خبط عظمت یہ ہے کہ ملک میں صرف انہیں ان داتا تسلیم کر لیا جائے باقی سب راندہ درگاہ ہو جائیں کیونکہ وہ سب چور اچکے لچے بد معاش ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ سے کیا جھگڑا ہے؟ یہ نہیں کہ وہ آئینی کردار میں سمٹ جائے۔ ہر گز نہیں ۔ بالکل بھی نہیں۔
اسٹیبلشنٹ سے شکوہ یہ ہے کہ وہ خاقان کو دوبارہ گود میں کیوں نہیں لیتی۔ اس سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ قومی ادارے کی بجائے عمران کے فاشزم میں سہولت کار کا کردار ادا کرے۔ باقی سب کا ناطقہ بند کر دے۔ سب کو ہانک کر ڈی چوک کی رقص گاہ میں لے جائے ، ووٹ پورے کرے ۔ قانون سازیاں کرائے ۔ خاقان ورلڈ کپ دن بارہ بجے سو کر اٹھیں اور سب کو گالیاں دے کر گھر لوٹ جائیں تو پیچھے قانون سازی سے لے کر دیگر معاملات تک فوج سب کو مینیج کر کے انہیں رپورٹ کرے کہ تعمیل ہو گئی ہے ، کل بارہ بجے نیند سے بیدار ہو کر تشریف لائیے گا، قانون پاس ہو جائے گا۔
یہ کلٹ ہے اور فاشسٹ ہے۔ جو صحافی تنقید کرے وہ لفافہ ، جو جج آرتی نہ اتارے بے ایمان قرار دے دیا جائے ، قوم کا ابا گود سے اتار دے تو خانہ ولدیت میں انک ریمور لگا دیا جاتا ہے ۔
سیاست دان سے انہوں نے بات نہیں کرنی ۔ بات صرف اسٹیبلشمنٹ سے کرنی ہے۔ خانہ ولدیت کا جھگڑا ہے ۔ کوئی اصولی جدوجہد نہیں ہے۔
دوسرے سیاست دانوں کا وجود گوارا نہیں اور تاثر ایسا ہے جیسے خود تو نیک پاک لوگوں کا ایک قافلہ ہے حالانکہ اپنا نامہ اعمال ایسا ہے کہ دنیا کی کون سی قباحت ہے جو اس میں درج نہیں۔، آدمی پڑھ دیکھ لے تو الامان پکار اٹھے۔
جھوٹ بد تمیزی بد اخلاقی ، یہ ہے ان کا کل زاد راہ۔ ساتھ ہی جھوٹ بولنے کی غیر معمولی ابلاغی قوت۔ حیران کن پوسٹ ٹروتھ۔ ناقابل یقین اعتماد کے ساتھ جھوٹ، مسلسل جھوٹ ، ہر رنگ نسل کا جھوٹ۔
یہ سیاسی گروہ ہے ہی نہیں، یہ اندھا اور بہرہ کلٹ ہے۔ فاشسٹ کلٹ۔ یہاں حکومت سے کارکردگی کا سوال ہی نہین ہوچھا جاتا ۔ یہاں صرف بد تمیزی اور بد اخلاقی سے لوگ سرخرو ہو جاتے ہیں۔ یہاں بزدار سے گنڈا پور تک کارکردگی غیر اہم ہے، اہم صرف یہ ہے کہ جھوٹ بولو ، بد تمیزی کرو۔ گالیاں دو۔ ہجوم چلا اٹھے گا کہ بلے بلے بلے۔ نچنے نوں دل کردا۔
یہ سیاست نہیں ہے ، یہ اس قوم کا امتحان ہے۔
واپس کریں