دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
شکریہ میرواعظ (تحریر آصف اشرف ۔راولاکوٹ )
No image حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں جو سب سے مایوس کن تاثر پیدا ہوا وہ یہ تھا کہ کشمیریوں کی کوئی لیڈر شپ نہیں ۔خوفناک دھماکوں گرجتی اور لرزتی زمین اور سہمے لوگ خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں۔ لاشے اٹھے بہت سارے گھر اجڑے املاک تباہ ہوئیں۔ اس کرب میں لیڈر شپ نے سامنے آنا تھا مگر مایوسی میرے شہر راولاکوٹ میں آج چودہ روز گذر چکے کہیں زخمی آج بھی بستر پر ہسپتال موجود ہیں میرا شہر چار اضلاع کا ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہے اور مظفرآباد حکومت میں براجمان چھ میں سے چار وزرائے اعظم یعقوب خان عتیق خان عبدالقیوم نیازی تنویر الیاس چغتائی اس خطہ کے باسی ہیں ان میں سے کسی ایک نے اپنی گونا گوں مصروفیات سے دو ہفتوں میں اتنا گوارہ نہیں کیا کہ ایک روز چل کر ان زخمیوں کی عیادت کر سکیں ۔
یہ ہی نہیں سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان پونچھ سیکٹر میں ہوا ان میں سے کسی ایک نے یہ ہمت نہ کی کہ وہ سیز فائر لائن پر پونچھ سیکٹر ہی کا دورہ کرے جس عوام کے بہانے وہ سارے "بلا تخواہ"'سپاہی ہیں بات ان تک ہی نہیں آزادی پسند بھی اپنے "ہم وطنوں"کے درد کو محسوس نہ کر سکے ان سے قوم کو ملی "امید"بھی دم توڑ گئی اس کیفیت میں جو سب سے بڑا "موقع"آزادی پسندوں کو ملا جس طرح اس کو وہ ضائع کر چکے تاریخ اس طرح کا موقع پھر شاید کھبی نہ دے پانچ اگست کے بھارتی اقدام پر بھی سارے نظریات کے حامل کشمیریوں کو سانپ سونگھ گیا تھا ۔
بلند بانگ دعوے کرنے والے تب کے وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے تو یوں چپ سادھے تھی کہ وہاں موجود دیگر کشمیری سیاست کار دنگ رہ گئے مگر بائر آکر فاروق حیدر کے ڈائیلاگ سلطان راہی کو پھیچھے چھوڑ گئے اگر وہاں فاروق طاہر رفیق ڈار عبدللہ گیلانی لب کشائی نہ کرتے تو عمران خان سرکار ایک نیاء معاہدہ شملہ کر گزرتی تب ایک قوم پرست تنظیم نے تتری نوٹ کی طرف لانگ مارچ کا بروقت اعلان کر کے قومی ترجمانی کا حق ادا کیا مگر اب کی پاک بھارت کشیدگی میں قوم پرستوں کا وجود ہی غائب ہو گیا پہلے ضرورت اس امر کی تھی کہ بھارت کے حملہ کے دوسرے روز قوم پرست ایک آواز بائر نکل آتے کہ جنگ نا منظور سفید پرچم لیکر شگاگو کے مزدوروں کی طرح جب کشمیریوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر ہوتی تو اقوام عالم کو ضرور پیغام ملتا کشمیری کشت وخون نہیں آزادی چاہتے ہیں پھر پونچھ کی دھرتی کے میرے پیارے جڑواں بہن بھائی زویا اور عروب گولیوں کا نشانہ نہ بنتے پھر شاید جامعہ علوم پونچھ کے قاری اقبال کا خون نہ بہتا پھر شاید اس پار کے پونچھ میں سرخ پرچم گلے میں ڈالے مقبول بٹ کے نعرے لگانے والا سکول کا معصوم طالب علم سردار تحسین انوار اپنے والد کی گود میں ابدی نیند نہ سوتا مگر نہ جانے آزادی پسندوں کو کس نے روک دیا؟ کشمیر سے یورپ تک کہیں سے بھی کوئی آزادی پسند "بیانیہ"سامنے نہ لاسکے۔
اب کی بار بڑا بہترین موقع تھا کہ کھل کر "مانگ "کی جاتی کہ آزاد فورسز بحال کی جائے 24اکتوبر کے ڈیکلریشن کی بحالی کی جائے عالمی حالات جب اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ پاکستان کشمیر پر حملہ آ ور ہو تب ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیر کی حکومت اپنی وکالت آپ کرے مگر مدعا اٹھائے کون ؟اس مایوسی اور کرب میں جان پر کھیل کر اور سنگینوں تلے میرواعظ مولوی عمر فاروق نے کشمیریوں کی" ترجمانی" کی جن الفاظ کا میرواعظ مولوی عمر فاروق نے چناؤ کیا اور اپنا درد اقوام عالم کو سنایا اس نے باور کرایا کہ کشمیریت زندہ ہے اور کشمیریوں کے پاس لیڈر شپ بھی موجود ہے ایسے میں جب بھاری بھر ہھتیاروں سے متنازعہ ریاست جموں کشمیر کے ہر دو اطراف معصوم بچوں خواتین اور بزرگوں کی شہادتیں ہوئی اس خون کی وکالت کر کے میرواعظ مولوی عمر فاروق نے متاثرہ خاندانوں کے زخموں پر مرہم رکھا اور ساتھ ثالثی کا خیر مقدم کرتے امریکہ کو باور کرایا کہ وہ ثالثی کے نام پر بندر بانٹ نہیں کر سکتا بڑا باریک نکتہ میرواعظ نے اٹھایا کہ کشمیر کی سب بات کر رہے ہیں مگر کشمیریوں کو کوئی پوچھتا ہی نہیں۔
اسلام آباد نے بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں عالمی سطح پر وفد کی تشکیل کی مگر امید پھر دم توڑ گئی کہ اس میں کوئی کشمیری نہیں ڈاکٹر نزیر گیلانی پر اعتماد نہ کرنے والے انوار الحق چودھری کو بھی "قابل اعتماد"نہیں مان رہے بیرسٹر ابراہیم خان کو ٹھکرا کر محمد دین تاثیر کو سامنے لانے جو "ناٹک"کیا گیا اور پھر حافظ سردار سجاد شاید عرف سجاد افغانی کو پس منظر میں لے جانے اس پر مسعود اظہر کو" مسلط" کرنے کا جو کھیل کھیلا گیا آج بھی وہ جا ری ہے کہ کشمیری مرے کشمیری معذور ہو مگر کشمیری اپنی بات آپ نہ کر سکے وہ اپنے مقدمہ میں نہ بطور فریق شامل ہو نہ وکالت آپ کر سکے اس بحرانی کیفیت میں آر پار صرف ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے اور ہم ہندوستانی ہیں ہندوستان ہمارا ہے کشمیری صرف یہ نعرے لگائے مگر میرواعظ مولوی عمر فاروق نے کھل کر اس توسیع پسندانہ سوچ کو مسترد کر کے باور کرایا کہ کشمیری آر پار صرف ایک سوچ پر ہے آواز دو ہم ایک ہیں اس پار بھی اس پار بھی ہم ایک ہیں ہم کشمیری ہیں کشمیر ہمارا ہے ۔
کل تک حریت کانفرنس کی وکالت کرنے والے بھی میرواعظ کے اس موقف پر اس کے ساتھ کھڑے ہونے تیار نہیں کیوں ؟اس لیے کہ میرواعظ کی موجودگی میں آزاد کشمیر کے کسی سیاست کار میں وہ علمی صلاحیت ہی نہیں کہ مسلہ کشمیر پر اپنا مدعا بیان کر سکے ہاں پونچھ کے معصوم جڑواں بہن بھائی کی شہادت پر نوحہ پڑھتے میرواعظ مولوی عمر فاروق کو اپنا بچپن یاد آیا ہوگا جب غیر ملکی تنخواہ دار اور آلہ کار گروہ نے ان سے ان کا باپ چھین لیا تھا وہ قاتل کہیں منطقی انجام پہنچے کہیں آج بھی جیلوں میں ہیں اور کچھ روپوش اس آلہ کار ی اور سہولت کاری کو بھی"جہاد"کا نام دیا گیا تھا مایوسی اور کرب کے اس عالم میں میرواعظ مولوی عمر فاروق کے جرات مندانہ موقف کو سلام عقیدت پیش کرتے یہ امید ہے کہ مقبول بٹ کی دھرتی ماں میں 1832سے اب تک جو قربانیاں دی گئیں اب وہ رنگ لانے والی ہیں۔
شخصیات کے سحر میں مبتلا انقلابیوں کو بھی باور ہوگیا کہ قیادتیں تحریکیں از خود جنم لیتی ہیں اور لیڈر شپ وہی ہے جو ح حالات کا ادراک کرے میرواعظ نے بروقت ادراک بھی کیا اور اظہار بھی کیا اب میرواعظ مولوی عمر فاروق کی زمہ داری ہے وہ اس موقف اور بیانیہ کو عالمگیر سطح پر لے جائیں اگر وہ ڈٹ کر کھڑے ہو گئے قوم ان کے ساتھ ہوگی اور تاریخ انہیں مسیحا کے طور یاد رکھے گی۔
واپس کریں