
سرکاری میڈیا کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں 16 جون سے 8 ستمبر تک گرمیوں کی چھٹیاں ہوں گی یعنی ملک کی عدلیہ 90 دن غیر فعال رہے گی۔ اب پوچھنا بنتا ہے کہ کیا جرم گرمیوں کی چھٹیاں بھی لیتا ہے؟ یا کیا گرمیوں میں کورٹ ایئر کنڈیشن کام نہیں کرتے؟ یادر ہے بچوں کے سکولوں میں 2 ماہ کی چھٹیاں ہوتی ہیں اور ادھر عدلیہ میں3 ماہ کی چھٹیاں جو ایک حیران کن امر ہے۔بحر حال آگے چلتے ہیں، پاکستانی عدلیہ میں چھٹیاں، خاص طور پر گرمی کی چھٹیاں، برطانوی استعماری دور سے شروع ہوئیں، جب انگریز جج گرمی سے بچنے کے لئے چھٹیاں لیتے تھے اور اکثر برطانیہ واپس جاتے تھے یا پہاڑی علاقوں میں چلے جاتے تھے۔ یہ روایت آزادی کے بعد بھی جاری رہی اور آج بھی جج گرمیوں کی چھٹیاں لیتے ہیں، جو عام طور پر جون کے آخر سے ستمبر کے آخر تک ہوتی ہیں۔
سپریم کورٹ ، ہائی کورٹس اور لوئر کورٹس گرمی کی چھٹیاں مناتی ہیں، اس پر تنقید اس لیئے بھی کی جاتی ہے کہ یہ چھٹیاں انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا باعث بنتی ہیں۔ 2023 کے آخری 6 ماہ میں 22.6 لاکھ مقدمات زیر التوا تھے، جن میں سے % 82 ضلعی عدالتوں میں اور% 18 اعلیٰ عدالتوں میں تھے۔ لاہور ہائی کورٹ میں 2023 میں 20 لاکھ سے زیادہ، اور صوبائی ضلعی عدالتوں میں 30 لاکھ سے زیادہ مقدمات زیر التوا تھے۔ جبکہ اب تمام عدالتوں میں مقدمات کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے۔
تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ ایئر کنڈیشننگ کی موجودگی کی وجہ سے اب اتنی طویل عدالتی چھٹیاں غیر ضروری ہیں، معروف وکیل عرفان آذ اد کے مطابق برطانوی دور کے ہاتھوں کے پنکھوں کی بجائے آج عدالتوں میں جدید سہولیات(سنٹرلی ائر کنڈیشن) موجود ہیں ایسے میں اتنی طویل چھٹیوں کا کیا جواز ہے؟ کچھ عرصہ قبل ججوں کی چھٹیوں کو غیر قانونی قرار دینے کی ایک درخواست بھی دائر کی گئی تھی، لیکن اسے عام انتباہ کا مقدمہ نہ ہونے کی وجہ سے خارج کر دیا گیا تھا۔ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی جائزہ سماعتیں 15 دنوں کے اندر نہ ہونے کی وجہ سے مقدمات کے بے اثر ہونے کا یہی خطرہ بتایا تھا ، جو عدالتی نظام کی کارکردگی پر سوال اٹھاتا ہے۔ پاکستان کی انصاف فراہمی کی درجہ بندی بھی کم ہے، ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کے 2023 رول آف لا انڈیکس کے مطابق 142 ممالک میں سے 130ویں نمبر پر ہے، جس کی وجہ میں زیر التوا مقدمات کی بڑی تعداد شامل ہے ایک بڑی وجہ گرمیوں کی چھٹیاں ہیں۔
دوسری جانب عدلیہ کی جانب سے اس سامراجی روایت کا دفاع بھی کیا جاتا ہے۔ ایک جج محترمہ نسرین جعفر کے مطابق جج بہت زیادہ دباؤ میں کام کرتے ہیں اور انہیں تفریح اور آرام کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے لیڈر شاہزاد شعیب کے مطابق جج سیاسی اور ریاستی اہمیت کے مقدمات سنتے ہیں، جن کے لئے توجہ اور فیصلہ کرنے کے لئے وقت ضروری ہے، لہذا چھٹیاں ان کی کارکردگی کے لئے اہم ہیں۔ تاہم، سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے ایک مرتبہ تجویز دی تھی کہ عدالتوں کو 24 گھنٹے کام کرنا چاہئے اور ججوں کی تعداد بڑھانی چاہئے تاکہ شام کے سیشنز بھی ہوں، جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ موجودہ عدالتی نظام،گرمیوں کی چھٹیاں، مناسب نہیں ۔ وہ پاکستانی عدلیہ میں موسم گرما کی تعطیلات پر بحث کرتے ہوئے مذید کہتے ہیں کہ جدید ایئر کنڈیشنگ کے باوجود گرمیوں کی عدالتی چھٹیاں کی انہیں برطانوی دور میں واپس لے جاتی ہیں۔انہوں نے اسے برطانوی نوآبادیاتی طرز عمل سے منسوب کیا جہاں جج گرمی سے بچ جاتے تھے، اکثر برطانیہ واپس آتے تھے یا پہاڑی مقامات پر چلے جاتے تھے۔یہ روایت پاکستان اور ہندوستان دونوں میں آزادی کے بعد تقریباً 70 سال سے جاری و ساری ہے۔
امر واقع یہ ہے کہ موسم گرما کی تعطیلات کے باعث جو لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں، ان کے مدعا علیہان کو قانونی چارہ جوئی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو مقدمات میں بنیادی تاخیر کا باعث ہے اور اوپر سے سیاسی مقدمات کو ترجیح ملتی ہے، جس سے عدالتی نظام پر عوام کا اعتماد تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔
پاکستانی عدلیہ میں موسم گرما کی تعطیلات کی روایت، برطانوی نوآبادیاتی دور سے وراثت میں ملی ہے اورپاکستان جیسے غریب ملک میں جہاں انصاف کی فراہمی کے عالمی اشاریہ میں کم درجہ بندی ہے عدلیہ گرمیوں کی چھٹیوں کی ضرورت کا دفاع کرتی نظر آتی ہے،جبکہ ایسی لمبی تعطیلات سے جہاں انصاف میں نمایاں تاخیر ہوتی ہے، وہاں عوامی اعتماد اور قانونی چارہ جوئی کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔
عدالتوں میں کالا کوٹ،ٹائی ، پتلون،قومی زبان کے بجائے انگریزی زبان کا استعمال،مائی لادڑ،مائی لارڈ شپ اور قانون بھی انگریزی، یہ ثابت کرنے کے لیئے کافی ہے کہ برطانوی سامراجی دور کی غلامانہ سوچ آج بھی ہمارے اوپر پوری طرح غالب ہے۔
واپس کریں