دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کشمیری دیوانہ ۔تحریر آصف اشرف
No image جس رات بھارت نے پاکستان پر حملے کیے دوسرے روز مقامی ہوٹل میں دوران گفتگو پھر اس "ان پڑھ"نے مشورہ دے ڈالا ہمیں جنگ نامنظور ریلی کرنا چاہیے، برسوں پہلے اسی بیلے نے اسی مقام پر جو تجویز دی تھی اس پر ہی تتری نوٹ کراسنگ پوائنٹ کی طرف تاریخی لانگ مارچ ہوا تھا جو پانچ اگست کے بھارتی اقدام کے خلاف تاریخ کا"واحد"احتجاج ٹھرا آج اس تجویز کے بعد ہنگامی طور کوششوں کی شروعات ہوئی اور پھر کچھ دیر بعد نماز مغرب کے بعد جنگ نا منظور ریلی شروع ہوئی این ایس ایف کے سرخ پرچم اٹھا کر جوان پھر میدان میں نکلے برسوں بعد آج عادل خان ماضی کے کارکن کے روپ دھارے سامنے آیا آج وہ جذباتی ہو کر خود نعرے لگائے جا رہا تھا وہ اپنی تنظیم کے بڑے مرکزی عہدے پر فائز ہے مگر کارکن بن کر نعروں سے سٹیج سیکرٹری تک وہ خود سامنے آیا آج اس نے زولفقار عارف کو لیڈر کے طور آگے کیا محسن عزیز کی محنت نے گہرا اثر دیکھا یہ آج ایک پاکستان کا طالب علم بھی این ایس ایف کا پرچم اٹھا کر یکجہتی کا اظہار کر گیا راولاکوٹ کا مقبول بٹ شہید چوک آج جموں کشمیر کا پہلا مقام ٹھرا جو جنگ نامنظور کا مدعا سرمیدان لایا آج واضع کہا گیا ہم صرف سیز فائر لائن پر جنگ کے مخالف نہیں ہم پاکستان کے علاقوں میں بھی جنگ کے مخالف ہیں جنگ تباہی کرتی ہے جنگ پر ہونے والے اربوں ڈالر دونوں ممالک عوام کی تعلیم روزگار علاج پر خرچ کریں کشمیری جنگ نہیں آزادی چاہتے ہیں یہ آواز تو اٹھی مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا اگلی رات پھر خون بہا دیا گیا۔
پونچھ سیکٹر سے بھاری ہتھیاروں کی فائرنگ سے پونچھ کے علاقے دیوی گلی تراڑکھل میں ایک بڑا فائر ہوا بھارت کے اس فائر سے دو مکان نقصان سے دو چار ہوئے ایک گاڑی کو لگا فائر تباہی مچا گیا گاڑی سے ہر دل عزیز جواں معاویہ نواز بھی بری طرح ٹکر لگنے متاثر ہوا اس کی ایک ٹانگ کٹ گئی وہ شیخ زید ہسپتال راولاکوٹ میں زیر علاج ہے اس کی آنکھ سے گرا آنسو زمین ہلا گیا وہ اس پرچم کو اٹھائے دیوی گلی کی بنجر زمین سے للکار رہا تھا جہاں سے سردار امجد قیوم یہی این ایس ایف کا سرخ پرچم اٹھا کر گلگت بلتستان کو اپنی دھرتی ماں قرار دے کر والدین اور بہنوں کو شہادت کا تاج پہنا کر چلا آج معاویہ نواز بھی وہی رستہ اپنا گزرا معاویہ نواز بھی امجد قیوم کی طرح اکلوتا بھائی ہے وہی جب مادر وطن جموں کشمیر پر اپنی قربانی پیش کر گیا تو ایک ویڈیو بہت ہلچل مچا گئی جس میں کچھ عرصہ قبل وہ این ایس ایف کی ریلی میں سرخ پرچم اٹھا کر آزادی کے نعرے لگاتے اپنے عزم کا اظہار کر رہا تھا آج جب جنگ کو چار روز گزر گئے تو قربانی میں سول سوسائٹی صف اول میں ہے معصوم بچوں خواتین سمیت پیر و جواں شہادت کی منازل طے کر گئے سب ہی غیر سیاسی اور عام لوگ قربانی دے چلے سول سوسائٹی کے بعد ایک جہادی تنظیم ہے جس کے مسجد میں سوئے دو شیر دل جواں حسن اور وقاص جانیں قربان کر چلے اور پھر قربانی کسی بڑھکی گروہ کی نہیں کسی فیس بک کے شودوں کی نہیں پھر قربانی قافلہ مقبول بٹ شہید کی ہے وہ قربانی دیوانے معاویہ نواز کی ہے جو اپنی جان قربان کرنے میں پیش پیش ہے۔ وہ آج غازی کشمیر ہے مجھے اس کی معصومیت دیکھ کر مصبیح الرحمن یاد آیا جب گل نواز بٹ شہید نے سیز فائر لائن روندنے کی کال دی تھی تب کچھ سرپھرے دیوانے سیز فائر لائن روند کر بھارتی مورچوں پر چڑھ دوڑے تھے مصبیح نے مورچوں پر سرخ پرچم لہرائے جو کہیں روز بی بی سی اور عالمی میڈیا دنیا کو دیکھاتا رہا کہ بھارتی مورچوں پر این ایس ایف کے پرچم لہرا رہے ہیں تب اس وقت کے وزیراعظم سکندر حیات برطانیہ میں زیر علاج مصبیح الرحمن کے پاس ہسپتال جا کر پیش کش کر رہے تھے کہ آپ اپنا تعارف این ایس ایف کے بجائے مسلم کانفرنس سے کروائیں مگر مصبیح الرحمن نے کیا جواب دیا وہ لکھنا ضروری نہیں آج پھر جب سوشل میڈیا پر اصلی اور نسلی کی کہانیاں چھڑی ہیں وہاں قدرت کے فیصلے پھر ثابت کر رہے ہیں کہ قدرت کس کو قبول کیے ہے کل کیا ہو گا صرف رب العالمین جانتے ہیں آج یہ ہے اور کھلا سچ ہے وہ یہ ہے کہ قربانی کے اس سفر میں مقبول بٹ شہید کا قافلہ معاویہ نواز کی قربانی کے باعث نمایاں ہے اور سرخرو بھی۔
مقبول بٹ شہید کے چاہنے والے یہ وطن ہمارا ہے اس پر حکومت ہم کریں گے کہ ساتھ اس کی جنگ ہم لڑیں گے کا ثبوت دے رہے ہیں کسی پراکسی وار کا حصہ بنے بغیر خود انحصاری کی پالیسی پر یہ سفر جاری ہے آج چار روز بعد کوئی قبرستان ایسا نہیں ملا جہاں کسی قرار داد کے پیروکار کا لاشہ دفن ہوا ہو کوئی ہسپتال ایسا نہیں جس میں سوشل میڈیا پر جہاد کرنے والا کوئی "مجاہد آخر"زیر علاج ہو سول سوسائٹی کی لازوال قربانیوں کے ساتھ صرف ایک قربانی ہے وہ مقبول بٹ شہید کے کارکن معاویہ نواز کی ثبوت شیخ زید ہسپتال راولاکوٹ میں زیر علاج معاویہ نواز خود ہے اس کے جذبات اس سے مل کر جانے جا سکتے ہیں مگر اس سے ملنا حوصلہ کا کام ہے۔
سستر سال کی تاریخ دیکھی جائے تو سیز فائر لائن کی طرف لانگ مارچ کی کہیں کال دی گئیں مگر گوگل ثبوت دیتا ہے کہ سیز فائر لائن صرف ایک بار روندی گئی وہ بھی معاویہ نواز کی این ایس ایف نے روندی بھارتی فوج نے این ایس ایف کے تین جیالے شہید کیے مگر جو آج تک سستر سال میں قربانی درکنار بھارت کا سامنا نہ کر سکے وہ آج بھی قافلہ مقبول بٹ کو کافر اور بھارتی ایجنٹ قرار دیے بغیر نہیں سو سکتے مگر تاریخ کچھ اور لکھے جا رہی ہے وہ تاریخ صرف یہ ہے کہ مقبول بٹ تیرا قافلہ رکا نہیں جھکا نہیں مقبول بٹ کی راہ ہماری ہے جنگ ہماری جاری ہے یہ تاریخ ہر دور میں لہو سے لکھی گئی یہ تاریخ سوشل میڈیا پر بیان بازی کرنے اور لوگوں کے جلسوں میں فن تقریر کا مظاہرہ کرنے نہیں معاویہ نواز کی طرح لہو دینے سے لکھی جاتی ہے۔
معاویہ نواز خوش بخت ہے خوش قسمت ہے جو غازی کشمیر بنا قدرت کے فیصلے ثبوت ہیں وہ پاک زات کس کا چناؤ قربانی کے کرتی ہے معاویہ نواز ٹانگ سے محروم ہو کر مقبول بٹ شہید کے نظرئیے کو سرخرو کر گیا غازی کشمیر پیارے بھائی معاویہ نواز تیری جدوجہد تیری قربانی کو سلام عقیدت آج صرف یہ شعر سوالیہ نشان بن کر ضمیر پر وار کر رہا ہے ۔
جنگ تو بند کرا دی تم نے اپنی فہم و فراست سے کہاں سے لاکر دو گے کڑیل بیٹے ماؤں کو۔
واپس کریں