دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ہندوستان کی طرف سے آبی جارحیت : ایک اور عالمی جنگ کی کوشش
No image (ڈاکٹر راجہ محمد سجاد خان، ڈائریکٹر کشمیر پالیسی ریسرچ انسٹیٹوٹ)
جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم میں انسانی جانوں کے بے پناہ ضیاع اور دیگر نقصانات کے بعد دنیا اس نتیجہ پر پنچی کہ اقوام متحدہ کی تشکیل کی جائے اور عالمی قوانین بنائے جائیں تاکہ پھر دنیا تباہی کی طرف نہ جائے۔ پر امن بقائے باہمی، قوموں کے حق خوداردایت کو تسلیم کرنے، بین لاقوامی، علاقائی اور دو طرفہ معاہدوں کا احترام کرنے اور تنازعات کی صورت میں پر امن حل کے لیے مختلیف فورموں کی تشکیل ہوئی۔ اگرچہ وہ مقاصد مکمل طور پر تو حاصل نہیں ہو سکے لیکن دنیا ایک بڑی تباہی سے فی الحال محفوظ ہے۔ مہذب دنیا نے علاقائی فورمز بھی تشکیل دیئے جو کامیابی سے چل رہے ہیں۔ بدقسمتی سے برصغیر میں ہندوستان ایک ایسی ریاست بن چکی ہے جو خود کو تمام عالمی قوانین اور معاہدات سے مبرا سمجھتی ہے۔ حیدر آباد پر قبضہ ہو یا گاندھی کو امن کی بات کرنے پر قتل کرنا، شروع دن سے ہی ہندوستان میں مذہبی جنونیت، فسطائیت اور توسیع پسندانہ عزائم ہی ریاست کی سرپرستی میں تقویت پا رہے ہیں۔ بین الاقوامی برادری کی ڈکشنری میں انسانیت، دہشت گردی، مساوات اور انصاف کے اصولوں کی تعریف ہر ملک اور ریجن کے لیے علیحدہ ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں اور دلتوں کے مذہبی مقامات کو تباہ کرنے، عقائد پر حملوں اور راشٹریہ سیوک سنگھ کی طرف سے دہشت گردی پر معاشی مفادات کی وجہ سے دنیا کی خاموشی نے ہندوستان کے جارحانہ عزائم کو مزید تقویت دی۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہندوستانی ریاست ہندوستان اور کشمیر سے نکل کر کنیڈا، امریکہ اور برطانیہ میں بھی دہشتگردانہ کاروائیاں کر رہا ہے۔
پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد ہندوستان نے ایک غیر ذمہ دار اور دہشت گرد ریاست کا کردار ادا کیا۔ پاکستان کی طرف سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کی پیشکش کا جواب جارحیت کی صورت میں دیا۔ رات کی تاریکی میں مساجد اور عام آبادی کو نشانہ بنایا اور پاکستان صرف ان جہازوں کو اور ان مقامات کو نشانہ بنایا جن سے جارحیت کی گئی۔ ہندوستان کی طرف سے مسلسل ڈرون اور سیز فائر لائن پر بلا اشتعال فائرنگ کے ذریعہ کشیدگی کو بڑھایا جا رہا ہے اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ہندوستان نے جو ایک عرصہ سے سندھ طاس معاہدہ میں اپنی مرضی کی تبدیلیوں کا خواہاں تھا یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔ سندھ طاس معاہدہ ورلڈ بینک کی کوششوں سے ہوا اور اس معاہدہ میں کوئی بھی تبدیلی یا تنازعہ کے حل کا طریقہ کار آرٹیکل 9 کے مطابق کمیشن یا پھر آرٹیکل 10 کے مطابق مصالحتی عدالت کے ذریعہ ہو سکتا ہے۔اسی معاہدہ کے آرٹیکل 11 (b) میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی فریق نہ یہ معاہدہ ختم کر سکتا ہے اور نہ ہی اس معاہدہ کے مطابق تسلیم شدہ حقوق کے علاوہ دعوی کر سکتا ہے۔ دریاوں کے پانی کے حوالہ سے اس معاہدہ کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قانون بھی موجود ہے جس میں کسی طور پر پاکستان کے پانی کو روکا نہیں جا سکتا۔ دریائے سندھ کا منبع تبت چین میں ہے اور ہندوستان میں بہنے والے بہت سارے دریاوں کے منبعے چین میں ہیں جیسے دریا ستلج اور برہم پترا۔ ہندوستان جب پاکستان کے ساتھ کسی عالمی قانون اور معاہدوں کو تسلیم نہیں کرے گا تو وہ چین سے بھی تسلیم کرنے کا حق کھو سکتا ہے۔ پاکستان کے پاس قانونی راستے موجود ہیں جس سے ہندوستان کو اس آبی جارحیت کو روکا جا سکتا ہے۔
ہندوستان نے 06 اور07 مئی کی درمیانی شب نہ صرف عام شہریوں اور مساجد کو نشانہ بنایا بلکہ اس نے نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کو بھی نقصان پنچایا جو بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔بین الاقوامی قانون انسانیت جس کا اطلاق جنگوں اور تنازعات میں ہوتا ہے اس کے مطابق پانی کے ذخیروں اور ڈیمز کو نقصان نہیں پنچایا جا سکتا۔ جنیوا کنونشن 1949 کے ایڈیشنل پروٹوکول 1 کے آرٹیکلز 54 اور 56 اس ضمن میں واضح ہیں۔ اسی طرح جنیوا پرنسپلز آن پروٹیکشن آف واٹر انفراسٹرکچر کے مطابق بھی پانی اور پانی کے متعلقہ انفراسٹرکچر کو جنگ کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ پاکستان میں آنے والے تمام دریا مقبوضہ جموں و کشمیر سے آتے ہیں اور ان دریاوں پر ہندوستان کا کوئی بھی دعوی درست نہیں۔ جموں و کشمیر ہندوستان کا حصہ نہیں بلکہ ایک متنازعہ خطہ ہے جس کو اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی برادری تسلیم کرتی ہے۔
پاکستان نے سندھ طاس معاہدہ کو منسوخ کرنے کو جنگی فعل قرار دیا ہے۔ اب اگر ہندوستان نہ عالمی قوانین کااحترام کرے گا اور نہ ہی بین لاقوامی یا دوطرفہ معاہدوں کا تو پاکستان کے پاس سوائے اس بات کہ وہ اس کی زبان میں جواب دے کوئی حل باقی نہیں رہتا۔ اگر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کسی بڑی جنگ کی صورتحال بنتی ہے تو یہ صرف دو ملکوں تک محدود نہیں رہے گی اور اس کے اثرات پوری دنیا تک جائیں گے اور پھر ایک تیسری عالمی جنگ کی شکل اختیار کر لے گی۔ اب بھی وقت ہے کہ عالمی برادری ہندوستان کے توسیع پسندانہ عزائم، جارحیت اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے یہ نہ ہو کہ ہندوستان سے معاشی مفادات کے لیے خاموش رہنے والے ہندوستان کی طرف سے لگائی جانے والی آگ کا شکار ہو جائیں۔
واپس کریں