دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جب 25سال قبل بھارتی درندے معصوم کشمیری لہو میں نہلا گئے
No image (تحریر۔ آصف اشرف )ایک درد بھری قیامت خیز رات۔۔۔۔۔24 اور 25 فروری 2000 کی درمیانی شب آزادکشمیر کے ضلع کوٹلی کی تحصیل نکیال میں جموں کشمیر کو پاکستان بھارت میں تقسیم کرنے والی منحوس عبوری خونی لکیر کے عین اوپر واقعہ گاوں لنجوٹ میں ابھی شام کو سالانہ ختم سے فارغ ہو کر گاوں کے لوگ گھروں کو روانہ ہوئے تھے جبکہ امام مسجد مولوی فیض رات پڑنے کی وجہ سے اسی گھر میں رک گئے تھے۔ یہ علاقہ کا ایک بڑا گھر تھا سدھن قبیلہ کی جرات ہونے دو سو سال قبل شروع ہوئی جب 1832میں پونچھ کے منگ گاؤں میں اس قبیلہ کے سبز علی خان ملی خان راجولی خان سمیت پندرہ حریت پسند وں کی زندہ کھالیں کھنچی اسی شہادت کا تسلسل لنجوٹ میں سردار خاندان کی چھ خواتین بچوں اور بزرگوں نے یہ قربانی دے کر آگے بڑھایا رات گھر میں عورتوں بچوں سمیت کل 18 افراد قیام پذیر تھے۔ گھر کی خواتین گھر کے صحن میں بیٹھی آپس میں باتیں کر رہی تھیں کہ انہیں گھر کے قریب جھاڑیوں میں سرسراہٹ محسوس ہوئی۔ جنگلی جانور سمجھ کو انہوں نے نظر انداز کر دیا۔ آہستہ آہستہ ہلکی ٹھنڈی شب کا اندھیرا گہرا ہوتا گیا اور گھر کے مکین کمروں میں چلے گئے۔ سیز فائر لائن پر حسب معمول کراس فائرنگ بھی جاری تھی۔ سب لوگ فائرنگ کی آوازوں میں سو گئے کہ یکایک فائرنگ کی آواز بہت تیز ہو گئی۔ بچے سوتے رہ گئے اور گھر میں موجود بڑے جاگ گئے۔ صحن میں کافی لوگوں کے بھاگنے کی آوازیں آنے لگیں پھر اچانک دروازے پر فائر لگے اور دروازے کی چٹخنی ٹوٹ گئی۔ بھارتی فوجی وردی میں ملبوس کافی تعداد میں فوجی گھر کے اندر گھسے اور گھر میں موجود سوتے جاگتے سب افراد پر فائر کھول دیا۔ گھر کے اندر موجود افراد نے بھاگنے کی کوشش کی مگر بے سود، گھر کے ایک جوان مرتضی کو دروازے میں لٹا کر زبحہ کیا گیا جبکہ بزرگ عالم خان کا سر کاٹ کر انکی لاش کرسی پر بٹھا دی گئی۔ مرتضی کی نوبیاہتہ اہلیہ جو زخمی حالت میں نکل کر بھاگنے میں کامیاب ہو گئی تھی اسے گھر سے کچھ فاصلے پر پکڑا گیا اور پتھر کی جائے نماز پر لٹا کر زبحہ کیا گیا۔ اسکی لاش قریب درخت کے ساتھ کھڑی کر کے اسکا سر اور بازو کاٹ کر بھارتی کمانڈوز اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ اشتیاق اور یونس گولیاں لگنے کے باوجود کھڑکی سے باہر نکلے اور قریبی پہاڑی سے چھلانگ لگا کر قریبی آبادی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور قریبی آبادی کے مکینوں کو سانحہ کی اطلاع دی جس پر مقامی آبادی گھٹاٹوپ اندھیرے میں سانحہ کی جگہ پہنچ گئی تب تک درندے اپنا درندگی کی داستان رقم کر کے جا چکے تھے۔
اطلاع ملنے پر سب سے پہلے اس گھر میں پہنچنے والے شوکت اعوان نے جو مناظر دیکھے وہ بیان کرتے ہیں کہ
"24 اور 25 فروری2000 کی درمیانی شب بارہ بجے بجلی بند ہو گئی۔بجلی بند ہونے کے چند لمحوں بعد ہی ایک زوردار دھماکہ ہوا۔جس سے درودیوار ہل گئے۔ہم سب لوگ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔۔۔
اس دھماکے کیساتھ ہی۔۔۔۔گولہ باری اور شدید فائرنگ کا ایسا طوفان برپا ہوا۔۔۔کہ اگلے ڈیڑھ گھنٹے تک ہمیں اپنی آواز بھی سنائی نہ دی۔بظاہر جنگ کا ماحول ہی لگ رہا تھا۔اور ہم خوف میں ذہنی طور پر تیار تھے کہ دشمن پیش قدمی کر رہا ہوگا۔کسی سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ہم نچلے محلے والے اپنی محدود حکمت عملی میں مصروف تھے کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔۔۔بھاگ سکتے نہیں تھے۔اس لئے یہ کیا کہ گھروں سے نکل کر دائیں بائیں کچھ عارضی پناہ گاہوں میں چھپ کر حالات کا جائزہ لیتے رہے۔۔۔۔۔اور طوفان کے تھمنے کا انتظار کرتے رہے۔۔۔
اسی خوفناک صورتحال میں رات کے ڈیڑھ بج گئے۔پھر اچانک گولہ باری کا طوفان بالکل تھم گیااور ہر طرف خاموشی چھا گئی۔۔
خاموشی کے اولین لمحے میں ہمارے عقب سے کراہنے کی خوفناک آوز آئی۔تو ہم ڈر گئے۔۔لیکن ہمت کر کے پکارا۔۔۔
کون ہے؟؟ کون ہے؟؟؟
"میں اشتیاق ہوں۔مجھے گولی لگی ہے۔مجھے بچاو۔۔۔"
(اشتیاق عبد الحمید کا نواسہ تھا جو فوج میں تھا اور چھٹی پر تھا)
ہم بھاگ کر اشتیاق کی پاس پہنچے۔اسے چادر میں لپیٹا۔اور نیچے گھرلائے۔کپڑے سے اس کا خون بند کیا۔اتنی دیر میں شور بلند ہونے لگا تھا۔ایک اور فوجی نوجوان جو چھٹی پر گھر آیا ہوا تھا۔۔وہاں سے زخمی حالت میں بھاگنے میں کامیاب ہو چکا تھا ورایک محفوظ جگہ پر پہنچ چکا تھا۔۔
اشتیاق نے مختصرا بتایا کہ نانا جان کے گھر انڈین کمانڈوز نے سب کو ماردیا ہے۔۔۔۔
وہ پھر بےہوشی میں چلا گیا۔۔بہت شدید زخمی تھا۔سینے میں خوفناک سوراخ ہو چکا تھا۔اور سردی سے ٹھٹھر چکا تھا۔ہم نے اسے چادروں میں لپیٹااور چند ساتھیوں کےحوالے کیا کہ اسکو خاموشی کیساتھ فائرنگ رینج سے نکالو۔۔۔۔
اب کیا کیا جائے۔۔اوپر والے گھر پہنچنا تھا۔ایک دو نوجوان کمر بستہ ہو گئے۔ اور اوپر کی طرف چل پڑے۔۔جب قریب پہنچنے لگےتو ہماری پاک فوج کے جوان بھی پہنچ گئے۔انہوں نے آگے جانے سے روکنا چاہا۔۔لیکن ہم نے کہا کہ آپ ہمیں کور فائر دیں۔ہم آگے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم فائر نہیں کر سکتے۔ ہم نے پوزیشن لے لی ہے۔آگے جانے کی اجازت نہیں ہے۔فائر کیا تو واپس نکلنا مشکل ہو جائے گا۔انتہائی ضرورت میں فائر کر کے نیچے ہو جائیں گے۔۔۔آپ اپنے رسک پر جا سکتے ہیں۔
ہمیں خدشہ تھا کہ دشمن آس پاس ہوا تو ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔۔ بہرحال ہمت کر کے کچھ آگے بڑھے۔مکان کے بلکل قریب سے جائزہ لیا۔بلکل خاموشی تھی۔یعنی کسی کے زندہ بچنے کے کوئی آثار نہیں لگ رہے تھے۔۔
ہم نے اپنی ساری قوتوں کو مجتمع کیا۔کچھ اور لوگ بھی پہنچ گئے۔ آنے والی خواتین چیخ و پکار کرنے لگی۔مرد حضرات انکو چپ کرا رہے تھے۔بہرحال۔۔
یہ ایک خود کش ہمت والی بھرپور کوشش تھی کہ ہم تین چار لوگ ایک ساتھ گھر کے اندر داخل ہو گئے۔
مکان کے لکڑی کے بڑے بڑے دروازے کھلے ہوئے تھے۔ہمارے پاس ٹارچ تھی۔اندر داخل ہوتے ہی بارود کی بدبو نے ہمارا استقبال کیا۔اوپر سے دشمن یقینا ہمیں مانیٹر کر رہا تھا لیکن وہ خاموش تھا۔ٹارچ جلائی تو سامنے فرش پر ایک لاش پڑی تھی۔اسکی گردن ساتھ نہیں تھی۔پاس میں ایک چارپائی ٹوٹی ہوئی تھی جو اسکی طرف سے کی گئ مزاحمت کی عکاسی کر رہی تھی۔ ہم نے غور کیا تو یہ حال ہی میں شادی کے بندھن میں بندھنے والا نوجوان مرتضی تھا۔کچھ کاغذات وغیرہ اسکے سینے پر پڑے ہوئے تھے۔جو اسکی جیب سے نکلے تھے۔۔لیکن اسکی بیوی ہمیں نہ مل سکی۔
۔یہ مکان کا داخلی حصہ تھا جسکو اپنی زبان میں" پسار" کہتے ہیں۔وہاں ہمیں دو تین لاشیں اور بھی ملیں۔لیکن پہچان نہ ہو سکی۔جب ہم نے باتیں کرنا شروع کیں اور لاشوں کو پہچاننے کی کوشش کی۔تو نیچے سے ہمیں دو بچیاں زندہ سلامت مل گئیں۔انہیں بال برابر زخم نہیں تھا لیکن وہ شاک میں تھیں۔جب ہم نے ہلایا تو وہ چیخ پڑیں۔انکو اٹھا کر ہم نے نیچے بھیجا وہاں سے ہمیں دوبچے بھی زندہ ملے جو زخمی تھے اور شاک میں تھے۔بعد ازاں ہاسپٹل میں انکی بھی شہادت ہو گئی۔۔۔
اب ہم ایک اور کمرے میں داخل ہوئے۔اس کمرے میں دونوں بزرگ تھے۔90 سالہ بابا عالم۔ اور انکے ہم عمر مولوی فیض۔
بابا عالم ایک صوفے پر بیٹھے تھے لیکن انکی گردن ساتھ نہیں تھی۔۔۔
ساتھ ہی دوسری کرسی پر سفید ریش مولوی فیض۔۔۔
ایسا لگا وہ بلکل زندہ سلامت ہیں۔لیکن خاموس تھے۔ہم نے ہلایا تو انکی گردن دوسری طرف ڈھلک گئی۔وہ بھی شہید ہو چکے تھے۔۔۔
اب تیسرے کمرے کی طرف بڑھے۔۔وہاں دو معصوم بچے فریاد اور عماد۔۔اپنی والدہ کی گود میں دم توڑ چکے تھے فریاد کا آدھا چہرہ اڑ چکا تھا اور اسکی والدہ کو کئی گولیاں لگی تھی۔وہ تینوں دم توڑ چکےہوئے تھے۔
ہم کسی شہید کو نہیں اٹھا رہے تھے۔بلکہ زندہ اور زخمیوں کو تلاش کر رہےتھے۔
اب آخری کمرے میں داخل ہوئے۔تو ایک خاموش زخمی خاتون نے اچانک چیخ ماری۔ہم پاس پہنچے۔اسکی 8 سالہ بچی اسکے پاس شہید پڑی تھی۔۔ہم نے اس خاتون کو اٹھانے کی کوشش کی۔تو اسنے بتایا کہ میرا پیٹ کٹا ہوا ہے۔مجھے نہ اٹھانا۔
دل دہلا دینےوالا منظر تھا۔وہ خاتون حاملہ تھی۔اسکا پیٹ پھاڑا ہوا تھا۔وہ زندہ تھی۔لیکن اس کی انتڑیاں باہر تھیں۔اسکو ایک چادر میں لپیٹا اور کچھ لوگ اسکو لیکر بھاگتے ہوئے فائرنگ رینج سے نکلنے لگے۔۔۔
اب زخمی اور زندہ لوگوں کو نکال چکے تھے۔یہ زخمی خاتون ۔۔۔زخمی نوجوان یونس کی اہلیہ تھی۔اسکو جب لیکر ہم تھوڑے نیچے پہنچے تو اس نے کہا کہ مجھے آگے نہ لے جاو۔ اپنے اکلوتے بچےسے ملوا دو۔ لیکن زخمی بچے کو ہم پہلے ہی روانہ کر چکے تھے۔
یہ خاتون چند لمحے زندہ رہی۔پھر اپنے زخمی خاوند کیساتھ باتیں کرتے کرتے شہادت کے رتبے پر فائز ہو گئی۔۔۔
اب ہم نے جو گنتی کی تھی اسکے مطابق ہمیں مرتضی کی
نو بیاہتا بیوی نہیں مل رہی تھی۔
جس کھڑکی سے اشتیاق اور یونس نکل کر بھاگے تھے۔اور بھاگتے ہوئے زخمی ہوئے تھے اسی کھڑکی سے وہ خاتون بھی نکلی اور چیخ و پکار کرتے جب بھاگی تو بھاگتےہوئے پہلے اسکو گولیاں ماری گئی۔پھر ادھر نماز کے لئے پتھروں سے ایک جگہ بنائی ہوئی تھی۔وہا اسکو ذبح کیا گیا اور دایاں بازوں اور گردن لیکر دشمن فرار ہو گیا۔اسکی لاش صبح کے وقت ملی۔"
اس سانحہ میں گھر میں موجود 18 افراد میں سے 14 کی شہادت ہو گئی۔ 2 بچیاں جو لاشوں کے نیچے تھیں اور بھارتی فوجی انہیں مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے تھے
آج اس سانحہ کو بیتے 25 سال پورے ہو چکے ہیں۔ شروع میں تو اس سانحہ کو سرکاری سطح پر یاد کیا جاتا تھا تاکہ نئی نسلوں کو پتہ چلے کشمیریوں نے خونی لکیر میں کس قدر خون کی ندیاں بہائی ہیں مگر پھر روایتی بے حسی حکمرانوں پر غالب آ گئی۔ شہداء کو ڈبسی کے مقام پر سپردخاک کیا گیا جہاں ایک صف میں 14 قبریں اور قبرستان کے دروازے پر لکھی عبارت اس داستان کو زندہ رکھے ہوئے ہے جبکہ لنجوٹ ہائی سکول اور گراونڈ کو شہدائے لنجوٹ سے منسوب کیا گیا۔ 24 سال گزر جانے کے باوجود حکومت پاکستان نے ان سرکٹی لاشوں کے سر اور بازو بھارت سے واپسی کا مطالبہ نہیں کیا آج الیاس کشمیری شہید کو سلام پیش کرتے قدرے سکون ہے جو چوبیس گھنٹوں میں سیز فائر لائن عبور کر کے بھارتی مقبوضہ کشمیر داخل ہوئے اور ایک اعلی بھارتی آفیسر کو زندہ گرفتار کر کے اس پار لائے بلکہ اس کا سر کاٹ کر کوٹلی چوک میں نمائش کی ان شہدا ء کی قربانی متنازعہ جموں کشمیر گلگت بلتستان کو متحدہ آزاد ملک کے طور سامنے لائے گی۔
واپس کریں