دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
خیبرپختونخوا میں سکولوں کے تعمیراتی منصوبے میں کرپشن کا نیا سکینڈل بے نقاب
No image (خصوصی رپورٹ: خالد خان)پشاور : خیبرپختونخوا کے محکمہ مواصلات و تعمیرات (C&W) میں کرپشن کا ایک اور سنگین سکینڈل سامنے آیا ہے، جہاں اپر دیر میں سکولوں کی تعمیر کے لیے ورلڈ بینک کے تعاون سے جاری منصوبے میں ٹھیکے میرٹ کے بجائے رشوت کی بنیاد پر دیے گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق، KP-HCIP پاکستان پراجیکٹ (Packages 01-08) کے تحت سکولوں کے لیے ٹینڈرز کا عمل مکمل طور پر غیر شفاف تھا۔ ایگزیکٹو انجینئر (XEN) نے اعلان کردہ 41 ٹھیکیداروں کے مالیاتی بڈز کو خفیہ رکھا اور کم ترین بولی کا سرکاری اعلان کیے بغیر مخصوص افراد کو ٹھیکے دے دیے۔
ٹینڈر کا عمل سنگل سٹیج ہونا تھا، لیکن اچانک اسے دو سٹیج میں تبدیل کر دیا گیا۔ باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی من پسند ٹھیکیداروں کو نوازنے اور رشوت کے ذریعے نتائج کو قابو میں رکھنے کے لیے کی گئی۔ مزید یہ کہ ٹینڈر فیس کے نام پر ہر ٹھیکیدار سے نقد 10 ہزار روپے اور اضافی 0.03 فیصد رقم وصول کی گئی، مگر یہ رقوم سرکاری خزانے میں جمع کرانے کے بجائے غائب کر دی گئیں۔
مزید تحقیقات سے یہ حیران کن حقیقت سامنے آئی کہ ٹھیکے ان کمپنیوں کو دیے گئے جنہوں نے بڈ میں حصہ ہی نہیں لیا تھا، جب کہ اصل ٹھیکیدار، جنہوں نے تمام قانونی تقاضے پورے کیے اور اضافی سیکیورٹی بھی جمع کرائی، انہیں نظرانداز کر دیا گیا۔
یہ پہلا موقع نہیں جب اپر دیر میں C&W ڈپارٹمنٹ پر کرپشن کے الزامات لگے ہیں۔ اس سے قبل سیلاب متاثرین کی بحالی کے منصوبے میں بھی یہی افسران خردبرد میں ملوث پائے گئے تھے، جس کے بعد ایک من پسند ٹھیکیدار سے ریکوری کے احکامات بھی جاری ہوئے تھے۔ اس کے باوجود، کرپشن کا یہ سلسلہ بلا خوف و خطر جاری ہے۔
اس سکینڈل کے انکشاف کے بعد متاثرہ ٹھیکیداروں نے عدالت سے رجوع کر کے ٹینڈرز کے خلاف حکم امتناعی حاصل کر لیا ہے، جب کہ مختلف حلقوں میں احتجاج بھی شروع ہو چکا ہے۔ تعمیراتی شعبے سے وابستہ افراد نے چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا، نیب، ایف آئی اے اور C&W کے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے کی شفاف تحقیقات کرائیں اور اس کرپشن مافیا کو بے نقاب کریں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا خیبرپختونخوا حکومت، خصوصاً وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور، اس معاملے پر کوئی کارروائی کریں گے، یا یہ سکینڈل بھی دیگر کرپشن کیسز کی طرح دب جائے گا؟ اگر شفافیت کو یقینی نہ بنایا گیا تو صوبے میں ترقیاتی منصوبوں پر عوام کا اعتماد مزید کم ہو جائے گا، اور ممکن ہے کہ لوگ انصاف کے لیے خود کھڑے ہونے پر مجبور ہو جائیں۔
واپس کریں