اندرونی سازشوں کے بیچ پی ٹی آئی کے احتجاج کی ناکامی طے ہے ۔سید زاہد عثمان
علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر گوہر کی لگاتار ملاقاتیں اور اڈیالہ جیل آنا جانا غمازی کرتا ہے کہ احتجاج نہ ہو اور تحریک انصاف بھی فیس سیونگ اور ریلیف لینا چاہتی ہے۔ عمران خان کو توشہ خانہ ٹو کیس میں ریلیف ملنا بھی واضح اشارہ ہے کہ اندر ضرور کچھ پک رہا ہے۔
تحریک انصاف نے ایک مرتبہ پھر 24 نومبر کو احتجاج کی کال دی ہے جس کو ' فائنل کال' کا نام دیا گیا ہے مگر اس حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں بھی ہو رہی ہیں، جس نے عوامی اور تجزیہ کاروں کی رائے کو بھی تقسیم کر دیا ہے۔ عوامی سطح پر زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ احتجاج ہوگا اور کچھ کا کہنا ہے احتجاج نہیں ہو سکتا، ممکن ہے مذاکرات کامیاب ہو جائیں اور تجزیہ کار بھی یہی سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کے احتجاج کی صورت حال اس مرتبہ واضح نہیں ہے۔ ممکن ہے جو کوششیں جاری ہیں یہ رنگ لے آئیں اور عمران خان کو توشہ خانہ ٹو میں ضمانت ملنے کو بھی اس کے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی بار بار اڈیالہ جیل کی یاترا کو بھی اس بات سے جوڑا جا رہا ہے کہ وزیر اعلیٰ جن کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں ان کی بات کو خان تک پہنچاتے ہیں اور وہاں سے جواب لے کر واپس آتے ہیں، مگر پارٹی کی سطح پر احتجاج کے لئے بھرپور تیاریاں جاری ہیں جن کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل کی جا رہی ہیں۔ ظاہر سی بات ہے دباؤ بنانا ہے اور اس سے دباؤ بن بھی رہا ہے۔
مرکز نے رینجرز اور پولیس کے ہزاروں اہلکار تعینات کیے ہیں،طمگر معاملہ پی ٹی آئی کی سطح پر اس مرتبہ مختلف ہے۔ پی ٹی آئی نے احتجاج میں شرکت کرنے کے لئے ہزاروں کارکنان لانے کے دعوے کرنے والوں کے لئے مانیٹرنگ سیل بنایا ہے۔ مانیٹرنگ سیل کے ذریعے یہ دیکھا جائیگا کہ کس ایم پی اے، ایم این اے کے ساتھ کتنے کارکن آئے ہیں، کون سا ایم پی اے، ایم این اے منزل تک پہنچا ہے اور کون راستے سے غائب ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق مانیٹرنگ سیل ریسکیو 1122 کے ہیڈ کوارٹرز سے کام کرے گا جس میں سنٹرل ڈسٹرکٹس سے مرد و خواتین کے الگ الگ گروپس بنائے گئے ہیں۔ اس صورت حال نے کھوکھلے دعوے کرنے والوں کی مشکل میں اضافہ کیا ہے۔
تحریک انصاف کے مطابق اس احتجاج کی خاص بات یہ ہے کہ بشرٰی بی بی خود اس کی قیادت کر رہی ہیں۔ ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ احتجاج اور مرکز پر بار بار چڑھائی کے حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے معاملہ اٹھایا ہے۔ مریم نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا سے وزیر اعلیٰ بار بار مرکز پر چڑھائی کے انداز میں احتجاج کرنے کے لئے آتے ہیں، جس پر ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے جواب دینے کی بجائے پی ٹی آئی کو درپیش مسائل کے حوالے سے بات کی ہے۔ خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے احتجاج کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مذاکرات کی بات ہو رہی ہے اور یہ کامیاب ہوتے ہیں تو اچھی بات ہے مگر ہم احتجاج کے لئے تیار ہیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ احتجاج میں کتنے لوگ شرکت کریں گے اس سوال کے جواب میں بیرسٹر سیف نے کہا کہ اس دن دیکھ لینا کتنے لوگ آئے تھے۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا میں امن و امان کی مخدوش صورت حال کے حوالے سے صوبائی حکومت نے خود کو بری الزمہ کر رکھا ہے، جیسے امن و امان صوبائی حکومت کا کام ہی نہیں، کسی اور نے اس کو ٹھیک کرنے کے لئے آنا ہے۔ صوبائی حکومت کا رویہ ایک سوالیہ نشان ہے کیونکہ موجودہ وقت صوبائی حکومت کی ترجیحات میں سب سے پہلے کام عمران خان کی رہائی ہے، چاہے روزانہ کی بنیاد پر درجن بھر لوگ مرتے رہیں۔ اس کے ساتھ ترقیاتی کام کے نام پر ایک اینٹ تک کا نہ لگنا بھی اس دلیل کو مضبوط بناتا ہے۔ وزیر خزانہ مزمل اسلم بار بار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں بجٹ سرپلس اور معاشی صورت حال پنجاب سے کئی گنا بہتر ہے، پنجاب نے جو ٹارگٹ رکھا تھا وہ پورا نہیں کیا اور ہم نے پہلی سہ ماہی میں سو ارب سے زائد کا سرپلس جمع کیا ہے۔
سیاسی مخالفین اور اسمبلی میں موجود اپوزیشن ارکان اس کو الگ انداز میں دیکھتے ہیں۔ ان کے مطابق جب کوئی کام نہیں ہوگا، پیسے لگیں گے نہیں تو خواہ مخواہ سرپلس میں جائیں گے۔ پنجاب میں حکومت نے درجنوں نئے منصوبے شروع کئے ہیں جس سے صوبے کی صورت حال بہتر ہو رہی ہے۔ اپوزیشن ارکان کے مطابق بنوں اور جنوبی اضلاع میں جو صورت حال ہے کیا اس پر چشم پوشی کی جا سکتی ہے؟ کیا اس کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی نہیں؟ سکیورٹی ادارے ذمہ دار نہیں؟ صوبے کو اس حالت تک پہنچانے میں تحریک انصاف کا کردار بالکل عیاں ہے۔ ماضی میں دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات اور اس کے نتیجے میں آباد کاریاں اس کی بڑی وجہ ہیں۔
مسلم لیگ ن کے صوبائی ترجمان اختیار ولی خان نے احتجاج کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت بے شرمی کی تمام حدیں پار کر چکی ہے، اساتذہ کو احتجاج میں شرکت کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے، ریسکیو 1122 کے ہیڈ کوارٹر پر تحریک انصاف کے سوشل میڈیا انفلوئنسرز نے قبضہ کر رکھا ہے، ریسکیو اہلکاروں کو بے دخل کر دیا گیا ہے، صوبے کے وسائل کو احتجاج کے لئے استعمال کرنا اگر انصاف ہے پھر تو یہ انصاف مبارک ہو۔
اختیار ولی خان کا مزید کہنا تھا کہ صوبے میں امن و امان کا مسئلہ اس حد تک سنگین ہو گیا ہے کہ صوبے کا آدھا حصہ نوگو ایریا میں بدل چکا ہے، رات کو وہاں جانے کا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، دن کے وقت ناکے لگنا شروع ہو گئے ہیں، مگر صوبائی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، وہ احتجاج کے نام پر صوبے کا دیوالیہ نکالنے میں مصروف ہیں، اور یہ کہ اگر یہ ایسا کریں گے ریاست پر چڑھائی کرنا چاہتے ہیں بے شک کریں مگر پھر روئیں مت کیونکہ ریاست بھی پھر لال والی انکھ دکھائے گی۔
پشاور سے ہم نیوز کے بیورو چیف سینیئر صحافی طارق وحید کا احتجاج کے حوالے سے کہنا ہے کہ بشریٰ بی بی نے جیل سے باہر آتے ہی جو زبان استعمال کی ہے اس سے ہیجانی کیفیت میں اضافہ ہوا ہے اور جذبات میں آ کر فائنل کال کی بات نے تحریک انصاف کو پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ ان کے ذہنوں میں بھی یہ بات ہے، اگر خدانخواستہ اس مرتبہ بھی ناکامی کا سامنا ہوا تو کیا بنے گا اور آگے کا راستہ کیا ہے؟
احتجاج ہوگا یا نہیں، اس حوالے سے طارق وحید کا کہنا تھا کہ جو کچھ گذشتہ ایک دو دن سے ہو رہا ہے، علی امین اور بیرسٹر گوہر کی لگاتار ملاقاتیں، اڈیالہ جیل آنا جانا، یہ اس بات کی غماز ہیں کہ احتجاج نہ ہو اور تحریک انصاف بھی فیس سیونگ اور ریلیف لینا چاہتی ہے۔ عمران خان کو توشہ خانہ ٹو کیس میں ریلیف ملنا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، واضح اشارہ ہے کہ کچھ پک رہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ آج رات تک پوری کہانی سامنے آ جائے۔ جہاں تک پارٹی پر علی امین اور بشریٰ بی بی کے قبضہ کرنے کا سوال ہے یہ محض باتیں ہیں کیونکہ تحریک انصاف کا تعلق عمران خان کی ذات تک محدود ہے، اگر عمران کو مائنس کرتے ہیں تو کوئی نہیں بچتا، بلکہ پارٹی ہی ختم ہو جائے گی۔ اگر ایسا کچھ ہوا یا کوئی سوچ رہا ہے تو یہ بالکل دیوانے کے خواب جیسا ہے۔
سینیئر صحافی عرفان خان کا احتجاج کے حوالے سے کہنا ہے کہ لگاتار ملاقاتوں کے سلسلے نے احتجاج کی کال اور ہونے کو مشکوک بنا دیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ مذاکرات کے لئے بیٹھ جائیں کیونکہ عمران خان بھی اس کے لئے راضی ہو جائیں گے۔ اندرون خانہ بہت کچھ ہو رہا ہے، پارٹی اختلافات اپنی جگہ موجود ہیں اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کسی نے سینیئر قیادت کو ایک ساتھ نہیں دیکھا جو کہ اختلافات کی جانب واضح اشارہ ہے مگر اس کے باوجود بھی ورکرز نکلتے ہیں کیونکہ وہ عمران خان کے ساتھ ہیں۔
عرفان خان نے بشریٰ بی بی کے رویے سے متعلق کہا کہ انہوں نے کوشش کی ہے کہ ایسا بیانیہ اپنایا جائے جس سے یہ پیغام جائے کہ پارٹی میں اختلافات نہیں ہیں مگر سچ کو چھپا نہیں سکتے۔ بشریٰ بی بی کی رہائی کو ڈیل کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے اور یہ بھی گمان کیا جا رہا ہے کہ آج جو فیصلہ آیا یہ بھی اندرون خانہ چلنے والی ملاقاتوں کا نتیجہ ہے، جس جج نے عمران خان کی ضمانت کا فیصلہ دیا ہے اگر ماضی میں ان کے فیصلوں کو دیکھا جائے تو وہ پرو پی ٹی آئی ہیں یعنی تحریک انصاف کے حق میں ان کے فیصلے زیادہ آئے ہیں۔
واپس کریں