2014ء میں تحریک انصاف کا طویل اورپرتشدد دھرنا سی پیک معاہدے کے لیے چینی وزیر اعظم کی آمد کے منسوخ ہونے کا سبب بنا جس کی وجہ سے قومی مفادات کا شدید نقصان پہنچا ۔ پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران پاکستان کو ڈی فالٹ سے بچانے کی خاطر حکومتی کوششوں کا ناکام بنانے کے لیے پی ٹی آئی کے دور میں وزیر خزانہ رہنے والے پارٹی رہنما شوکت ترین کی جانب سے پنجاب اور کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومتوں کے وزرائے خزانہ کو ہدایت کی گئی کہ عدم تعاون کا رویہ اختیار کرکے آئی ایم ایف سے معاہدے کیلئے جاری وفاقی حکومت کی کوششوں کا ناکام بنا دیا جائے۔رواں سال فروری کے وسط میں نگراں دور حکومت میں بانی پی ٹی آئی نے بذات خود آئی ایم ایف کو خط بھجوایا جس میں نگراں حکومت سے معاہدہ نہ کیے جانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اس کے بعد گزشتہ سال 9 مئی کو مبینہ طور پر فوجی قیادت کے خلاف بغاوت برپا کرانے کے لیے ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملے کیے گئے جس کی بیشتر تفصیلات منظر عام پر آچکی ہیں ۔
حالات کے اس تناظر میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان پی ٹی آئی کے اسی مستقل طرز سیاست کا تسلسل نظر آتا ہے۔ اس پر وزیر دفاع خواجہ آصف اور دوسرے حکومتی ذمے داروں کا یہ اعتراض کی پی ٹی آئی اپنے بانی کی رہائی کی خاطر انتہائی اہم قومی مفادات کو بھی خاطر میں لانے پر تیار نہیں، حب الوطنی کے تقاضوں کی رو سے اگرچہ درست ہے لیکن یہ حقیقت بھی لائق توجہ ہے کہ بظاہر متعدد سنگین الزامات میں بانی پی ٹی آئی پر قائم مقدمات عدالتوں میں کمزور کیوں ثابت ہوتے ہیں ، انہیں جیل میں رکھنے کی خاطر مسلسل نئے مقدمات قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے،نو مئی اور القادر ٹرسٹ جیسے مقدمات آگے کیوں نہیں بڑھ رہے ۔
الزامات حقیقت پر مبنی ہیں تو ثبوت و شواہد عدالتوں میں پیش کرکے مقدمات جلدازجلد منطقی انجام تک پہنچائے جانے چاہئیں بصورت دیگر تحریک انصاف کی جانب سے اپنے بانی کی رہائی کا مطالبہ درست قرار پائے گا اور اسے تسلیم کرنے سے انکار ملک میں مسلسل سیاسی بے چینی اور عدم استحکام کا سبب بنا رہے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر عمران خان تک فوری رسائی نہیں دی جاتی تو 15 اکتوبر کو پورا پاکستان اسلام آباد پہنچے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے شرکت نہیں کی۔ اجلاس کے بعد سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ 15 اکتوبر کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں بھرپور احتجاج کیا جائے گا، جس کے لیے مرکزی کمیٹی سے لے کر علاقائی سطح تک تمام تنظیمی ذمہ داران اور ونگز کو تیاریوں کی ہدایت کر دی گئی ہے۔
اعلامیے کے مطابق 15 اکتوبر کو ڈی چوک کے پرامن احتجاج کی تیاریوں کے پیشِ نظر پنجاب کے اضلاع میں ہونے والا احتجاج منسوخ کر دیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان نے 15 اکتوبر کو ڈی چوک میں احتجاج کے فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میرا ذاتی مؤقف ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر احتجاج نہیں ہونا چاہیے لیکن اگر ہمیں اسی طرح دیوار سے لگایا جائے گا تو ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہو گا۔
پی ٹی آئی والے ملکی ترقی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں، یہ لوگ ریاست کو بلیک میل کرکے بانی پی ٹی آئی کو رہا کرانا چاہتے ہیں۔ ان کی سوچ بس یہ ہے بانی پی ٹی آئی نہیں تو کچھ نہیں۔ ایک ہفتہ پہلے بھی اس جماعت نے اسلام آباد پر یلغار کی۔ اس کیلئے ایک صوبے کی تمام مشینری اور وسائل استعمال کیے گئے۔ایس سی او کانفرنس کے موقع پر احتجاج کی کال پی ٹی آئی کی ملک دشمنی کا ثبوت ہے، ان کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو رہا کیا جائے۔ پی ٹی آئی والے ایک بار پھر9مئی جیسا حملہ کرنا چاہتے ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان ترقی کرے، ملکی بقا اور سلامتی ہماری ریڈ لائن ہونی چاہیے، ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں۔
واپس کریں