حکومت پاکستان کی 104ارب اور نیشنل بنک کی 38ارب روپے کی مقروض قومی اسٹیل مل 2015سے بند پڑی ہےاور متذکرہ قرض پر سود کی مد میں اس پر مزید 17ارب روپے واجب الادا ہیں ۔18ہزار ایکڑکثیر رقبے پرپھیلےاس اثاثے کی مالیت 622ارب روپے ہے۔اس رقبے کے 10ہزارایکڑ پرملز پلانٹ جبکہ8ہزار ایکڑحصہ رہائشی کالونیوں پر مشتمل ہے۔ 500میں سے 358گاڑیاں کارآمد ہیں۔ ملازمین کی تنخواہوں کا سالانہ حجم 3.1ارب روپے جبکہ گزشتہ 10برس کے عرصے میں 7ارب روپے کی گیس استعمال ہوچکی ہے۔
دودہائیوں سے پاکستان اسٹیل مل کو نجی شعبے کے پاس فروخت کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں تاہم ابھی تک اس پرقابل ذکر پیشرفت نہیں ہوسکی۔
ذرائع کے مطابق مارکیٹ میں اس کا کوئی خریدار نہیں،نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مل کی مشینری میں اسکریپ کے سوا کچھ نہیں رہا۔دوسری طرف پاکستان کو اسٹیل کی کھپت میں سالانہ 31لاکھ ٹن کمی کا سامنا ہے۔مقامی پیداوارنہ ہونے سے اسے کثیرزرمبادلہ کے عوض درآمد کرنا پڑرہا ہے۔جس کے تناظر میں ملک میں اسٹیل مل کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں۔
روس کا اعلیٰ سطحی وفد جو، ان دنوں پاکستان میں ہے،بدھ کے روز نائب وزیر صنعت وتجارت الیکسی گروزاور پاکستان کےوزیر صنعت وپیداوار رانا تنویر حسین کے درمیان نئی اسٹیل مل کے قیام پر غوروخوض کیا گیا۔مشترکہ اعلامیہ کے مطابق 700ایکڑ اراضی پریہ کراچی میں قائم کی جائے گی،جس کیلئے حکومت نے پہلے ہی جگہ مختص کررکھی ہے ۔اسٹیل مل سے ملک کو سالانہ 2.7ارب ڈالرکی بچت ہوگی۔ یہ تخمینہ سامنے نہیں آیا کہ مل کب پیداوار شروع کرے گی،تاہم پہلی اسٹیل مل کے تجربات ملحوظ رکھتے ہوئے86ہزار ارب روپے کے مقروض ملک کےنئے اثاثے کو آئندہ نقصانات سے بچانے کیلئے فول پروف اقدامات ضروری ہیں۔
بشکریہ جنگ
واپس کریں