دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مظفرآباد تو سلامت رہے۔کالم نگار، آصف اشرف
No image دھرتی ماں جموں کشمیر کا ہر ذرہ ہر قصبہ ہر شہر اپنے اندر منفرد مقام رکھے ہے۔ جب بھی دھرتی ماں کے وقار اور عزت کا سوال اٹھے ہر ایک قربان ہونے صف اول میں ہے۔ نوے کی دہائی میں آر پار جموں کشمیر کو تقسیم کرنے کی کہانی گڑھی گئی جنرل ضیاء الحق کے منصوبے پر وادی کو بھارت سے چھڑا کر بفر اسٹیٹ بنانے کا فیصلہ ہوا تو اس کا ادراک سب سے قبل مظفرآباد میں جنم لینے والے وقت کے انقلابی گل نواز بٹ نے کیا گیارہ فروری کو یوم مقبول پر انسانوں کا سیل بیکراں لیکر جب وہ چلا تو تاریخ بن گئی ۔
جبری تقسیم کی علامت منحوس عبوری خونی لکیر روند ڈالی گئی پرامن اور غیر مسلح نہتے حریت پسند بھارتی مورچوں پر اپنے پرچم لہرا چلے سارے کشمیر کے سرفروش اس عمل میں شامل تھے مگر گولیاں سینوں میں کھا کر امر ہوئے تینوں حق پرست فرخ رضا قریشی لیاقت اعوان اور سجاد انجم تینوں کا تعلق مظفرآباد سے تھا تو آباد میں آباد مظفرآباد مظفرآباد کا نعرہ بنیاد بن گیا ساری مصلحتوں ساری منافقتوں کو مظفرآباد کے شہیدوں نے دھو ڈالا جب قباہل کی یلغار ہوئی تھی تب بھی ماسٹر عبدالعزیز شہید رکاوٹ بن کر سامنے آئے۔
نوے کی دہائی میں جب وادی کے لوگ عزم آزادی کے ساتھ اس کشمیر وارد ہوئے تو مظفرآباد نے میزبانی کا صیح حق ادا کیا بانوے میں جب قائد تحریک امان صاحب نے سیز فائر لائن روندنے کی کال دی تب مظفرآباد پھر صف اول میں رہا پاکستانی رینجرز کے ہاتھوں سات نوجوانوں نے شہادت پائی چھ کا تعلق مظفرآباد سے تھا دہلی اسلام آباد کو ان شہدا نے باہم جوڑ کر ایک صف میں کھڑا کیا کل جب نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے بہانے مظفرآباد اجاڑنے کی شروعات کی گئی دریا روک کر ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے مذموم کوشش کی گئی تو مظفرآباد ہی نئی سوچ کا ترجمان بنا نیلم جہلم بہنے دو ہمیں زندہ رہنے دو کا نعرہ مظفرآباد نے متعارف کرایا اور پوری دنیا میں گونجا گئے برسوں جب پی این ا ے کا لانگ مارچ ہوا تو مظفرآباد بدل گیا مزاحمت کے بجائے ملاپ نظر آیا مگر اب کی بار بلدیاتی انتخابات نے نقشہ بدل ڈالا۔ گل نواز بٹ کے تربیت یافتہ آٹھ نوجوان کونسلر بن گئے مردہ ضمیر پھر جاگنے لگے سیاست کے کھیل میں بڑی تبدیلی سامنے آئی گیارہ مئی کو جب لانگ مارچ مظفرآباد آنا تھا حیران کن مزاحمت سامنے آئی ۔
شہر مظفر آباد میں بوڑھے داؤد اعوان ایڈووکیٹ نے جب مزاحمت کی راہ اپنائی تو پھر سارا مظفرآباد گل نواز بٹ بن گیا قدم قدم پر مزاحمت اور پھر گوجرہ میں تاریخ دہرا دی گئی اہل پونچھ نے ساٹھ کی دہائی میں راولاکوٹ سے پی سی کی پتلونیں اتروا کر بھجنے کی جو تاریخ رقم کی تھی وہ گوجرہ مظفرآباد والوں نے زندہ کر دی جب صدر پاکستان آصف زرداری نے کوہالہ سے رینجرز واپس بلوالی، جب عوامی ایکشن کمیٹی کے بجلی آٹے مراعات پر مطالبات منظور کرنے کا فیصلہ کر دیا گیا پھر کیوں رینجرز بلوائی اس پر لوگ رکاوٹ بن گئے پھر وہی راہ اپنائی جو کربلا میں امام حسین کے قافلہ نے اپنائی تھی۔
پھتروں سے اٹیمی فورس سے جنگ لڑی میری آنکھوں نے یہ منظر دیکھا کہ ریجنرز مظفرآباد داخل نہ ہوسکی وہ مری ایبٹ آباد کی کچی سڑکوں سے واپس شکست کھا کر بھاگی وقار ثاقب اور اظہر اپنے مقدس لال لہو سے نئے دیپ جلا گئے تو آباد میں آباد مظفرآباد مظفرآباد کو ہر کشمیری کی نعرہ سے دعا بنا گئے وقار نے گوجرہ گاؤں کو ویسے مزاحمت کی نشانی بنایا جس طرح سبز علی خان راجولی خان ملی خان نے 1832میں زندہ کھالیں کھنچوا کر پونچھ کے گاؤں منگ کو رہتی دنیا تک بغاوت کا مرکز بنایا ثاقب نے پلیٹ محلہ کو پھر قوم پرست فکر کی شناخت بنایا اور عظیم اظہر الدین تو ہیرو بن گیا وہ ار پار کشمیر کی جڑت بن گیا اظہر کا والد کمانڈر جوگی بادشاہ بھارتی فورسز کے ہاتھوں وادی میں شہید ہوا اور بیٹا نام نہاد آزاد کشمیر میں پاکستان کی فورس کے ہاتھوں جس کے قاتلوں کے خلاف سردار عارف شاہد شہید کی طرح نہ ایف آئی آر درج کی جاتی ہے نہ ان کے کورٹ مارشل کی سزا سنانے کا اعلان مگر زندگی کو یہ شہید امر کر گئے اپنے پانی سے پیدا بجلی چھتر سال بعد جب کشمیر کے گھروں میں جلے گی تو اس کی حرارت مظفرآباد کے ان شہیدوں کے خون سے ہوگی۔
سچ تو یہ ہے کہ ان شہیدوں کے ساتھ میرپور کا ناحق مارا گیا شہید عدنان فاروق بھی شامل ہے میں گل نواز بٹ شہید کے مسکن مظفرآباد کا مقروض ہوں میں ان شہیدوں کی قربانی اپنے لیے باعث فخر جانتا اور مانتا ہوں سارے تحفظات سارے شکوے ساری ناراضگیاں ہر وقت ہر تحریک مظفرآباد نے خون دیکر دھوئی اب کی بار حقوق تحریک کے لانگ مارچ میں میزبان مظفرآباد کے بچے بوڑھے مرد وخواتین کا استقبال کا عمل میری آنکھوں سے اوجھل نہیں ہورہا تھا میں آزادی کی خواہش لیے مظفرآباد پناہ گزین وادی کی ماؤں بہنوں بچوں جوانوں بزرگوں کے قدم قدم دیدہ دل فرش راہ ہونے کو نئی صبع میں بدلتے دیکھ ہی رہا تھا کہ بے گھر اور بے سہارا اظہر کے لاشے نے مجھے خون کے آنسو رلا دیا مظفرآباد میں ارمانوں کا خون ہوتے دیکھنے والی اس بیوہ ماں کو اکلوتے بیٹے کی شہادت پر اتنا باور کرواتا ہوں مقبول بٹ کی قربانی سے جلا پکڑنے والی تحریک اظہر کی مظلومانہ شہادت کے بعد اب ضرور کامیاب ہوگی مظفرآباد کے شہیدو تمیں سلام تماری قربانی کے بعد بس ایک دعا مظفرآباد تو سلامت رہے مظفرآباد تو آباد رہے مظفرآباد تو سرخرو رہے۔
واپس کریں