دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
'گنڈاپور، شبلی فراز سمیت کئی پی ٹی آئی رہنما منصوبہ بندی کے تحت لائے گئے
No image سینئر صحافی اعزاز سید کے مطابق علی امین گنڈاپور کو پارٹی چھوڑنے کو نہیں کہا گیا اور یہ سوچا گیا کہ اپنے اثاثے کے طور پر ان سے کام لیتے رہیں گے۔ اب وہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ بن گئے ہیں تو انہوں نے اپنے لیڈر عمران خان کو بھی خوش رکھنا ہے اس لیے وہ جذباتی بیانات دیتے رہتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے بڑے بڑے ناموں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت اور سیٹنگ کے ساتھ الیکشن لڑا تھا۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور سینیٹر شبلی فراز بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو سیٹنگ کے تحت پارلیمان میں لائے گئے ہیں۔ طاقتور حلقوں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ اپنے ہی آدمی ہیں اور انہیں پارٹی میں رکھ کر ہی ان سے کام لیا جا رہا ہے۔
علی امین گنڈاپور کی جانب سے وفاقی حکومت کو دیے جانے والے 15 دنوں کے الٹی میٹم پر گفتگو کرتے ہوئے اعزاز سید نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے واجبات کا معاملہ آج کا نہیں ہے، ہر دور حکومت میں صوبوں اور مرکز کے درمیان اس قسم کے تنازعات دیکھنے کو ملتے ہیں جن کو بیٹھ کر بات چیت کے ساتھ حل کیا جاتا ہے۔ لیکن وزیر اعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور جو سیاست کر رہے ہیں وہ قابل تعریف نہیں ہے۔ وہ توہین اور دھمکی کی سیاست کر رہے ہیں۔ کچھ روز قبل ہی ان کا گورنر خیبر پختونخوا کے ساتھ تنازعہ سامنے آیا اور اس دوران جیسی زبان کا انہوں نے استعمال کیا، یہ افسوس ناک بات ہے۔ جب آپ کسی کے بارے میں مسلسل اس قسم کے بیانات دیں گے اور تضحیک کا نشانہ بنائیں گے تو جواب تو آئے گا۔
اعزاز سید نے کہا کہ معاملہ یہ ہے کہ علی امین گنڈاپور نے ایک 'سیٹنگ' کے تحت الیکشن لڑا ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ بلکہ پاکستان تحریک انصاف کے کچھ بڑے ناموں کا ذکر کیا جائے تو انہوں نے ایک مفاہمت کے تحت الیکشن میں شرکت کی تھی۔ 9 مئی کے فسادات میں ملوث لوگوں میں علی امین گنڈاپور کا نام بھی شامل تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے پشاور میں اپنی سیٹنگ بنائی اور اسلام آباد میں موجود 'طاقتور حلقوں' میں اپنے لیے راستہ بنایا جس کے بعد انہیں الیکشن لڑنے کی بھی اجازت دی گئی۔ سیاست دان الیکشن سے پہلے راستہ بنانا جانتے ہیں۔ الیکشن سے پہلے علی امین گنڈاپور کہتے تھے کہ مجھے موقع دیں اور پارٹی میں رہ کر سارا کام کرنے دیں۔ پرویز خٹک نے بھی اُس وقت اسٹیبلشمنٹ کو یہی آفر دی تھی کہ آپ مجھے پی ٹی آئی چھوڑنے کو نہ کہیں لیکن اس وقت ان پر بہت زیادہ دباؤ تھا۔
پرویز خٹک نے متعلقہ حلقوں کو کہا تھا کہ اگر آپ مجھے پارٹی میں رہنے دیتے ہیں تو میں پارٹی میں رہتے ہوئے آپ کے مفادات کا بہتر طریقے سے تحفظ کر سکوں گا لیکن ان پر اتنا دباؤ ڈالا گیا کہ وہ پارٹی سے باہر ہو گئے۔ تجربہ کرنے والے کر چکے تھے، اسی لیے علی امین گنڈاپور کو پارٹی چھوڑنے کو نہیں کہا گیا اور یہ سوچا گیا کہ اپنے ایسیٹ کے طور پر ان سے کام لیتے رہیں گے۔ اب وہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ بن گئے ہیں تو انہوں نے اپنے لیڈر عمران خان کو بھی خوش رکھنا ہے اور پارٹی پالیسی کو بھی لے کر چلنا ہے۔ کیونکہ وزیر اعلیٰ تو وہ اپنے پارٹی لیڈر کی منشا پر ہی بنے ہیں۔ لیکن وہ شاید پوری طرح سے کنٹرول میں نہیں رہے۔
صحافی نے مزید کہا کہ اور بھی بہت سارے لیڈر ہیں جو طاقتور حلقوں کے ساتھ سیٹنگ کے تحت آئے ہیں، سینیٹر شبلی فراز اس کی ایک مثال ہیں۔ جن دنوں اسلام آباد سے سینیٹرز کی گرفتاریاں ہو رہی تھیں تو ان دنوں اسلام آباد پولیس کے ایک افسر کو ایک طاقتور افسر کا فون آیا۔ یہ فون ان لوگوں کی جانب سے آیا تھا جنہیں ہم 'نامعلوم افراد' کہتے ہیں۔ اس طاقتور افسر نے کہا کہ شیریں مزاری اور فواد چوہدری اسلام آباد میں فلاں فلاں جگہ پر ہیں، انہیں جا کر گرفتار کریں۔ اس پر پولیس آفیسر نے کہا کہ ہماری سپیشل برانچ کی اطلاع ہے کہ سینیٹر شبلی فراز بھی اسلام آباد میں فلاں جگہ پر ہیں تو اس کے جواب میں طاقتور افسر نے کہا کہ شبلی فراز کی طرف نہیں جانا، وہ اپنے ہی آدمی ہیں۔
اعزاز سید نے بتایا کہ جس دن سے شبلی فراز باہر آئے ہیں وہ بہت اچھی اور مناسب گفتگو کر رہے ہیں۔ سینیٹ میں ان کی گفتگو کو دیکھ لیں، آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔ یہ سب ایسے ہی نہیں ہو رہا۔ اس کے پیچھے پوری سیٹنگ ہے۔
واپس کریں