ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا
احتشام الحق شامی۔ وقت بدل گیا ہے اور کسی بھی ملک یا قوم کو غلام بنانے کے لیئے اب بندوق کے استعمال کے بجائے،اس قوم کو غیر ملکی سودی قرضوں کی ایسی دلدل میں دھنسا دیا جاتا ہے جس سے وہ قوم یا ملک کبھی بھی باہر نہ نکل سکے۔ آج کا استعمار(colonialism) ”غیر ملکی قرض ہے“ اور عالمی بینک اور آئی ایم ایف جیسے عالمی ادارے آج کے استعمار کے کل پرزے ہیں۔ ممالک اور اقوام کو غلام بنانے کے لیے جان بوجھ کر مقروض کیا جاتا ہے لیکن ہمارے بزرگوں نے شروع سے ہی ہمیں مذید غلامی میں رہنے کے لیئے از خود عملی اقدامت کیئے۔مثلاً ایک عرصہ کے بعد منظرِ عام پر آنے والی ہوشرباء دستاویز(جو یقینا ہم سب کی نظروں سے گزری ہے) کے مطابق آزادی، بٹوارے یا تقسیم کے فوراً بعد، پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے اپنے سفیر کے ساتھ بھیجے گئے ایک خط میں امریکہ سے 2 ارب ڈالر کی فوجی اور مالی امداد کی درخواست کی، جس میں فوج کے لیے 170 ملین ڈالر، فضائیہ کے لیے 75 ملین ڈالر، بحریہ کے لیے 60 ملین ڈالر اور صنعتی اور زرعی ترقی کے لیے 700 ملین ڈالرز کا مطالبہ یا اپیل کی گئی تھی۔اب اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں کہ غیر ملکی قرضوں کی لعنت کا ہار ہم نے اپنے گلے میں خود لٹکانے میں پہل کہ یا کہ کسی نے ہمیں قرضہ دینے پر مجبور کیا۔ اب آگے چلتے ہیں۔۔۔
جیسے سقوطِ ڈھاکہ کے ایک عرصہ بعد منظرِ عام پر آنے والی حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ نے پاکستانی قوم کے سر شرم سے جھکا دیئے، جیسے اس جذباتی قوم کو ایک عرصہ بعد منظرِ عام پر آنے والی دستاویزات کے زریعے معلوم ہوا کہ در اصل روس کے خلاف جنرل ضیاء کا افغان جہاد تو امریکہ کی جنگ تھی یعنی امریکن اسپانسرڈ امریکن جہاد، جس میں ہم امریکہ ڈالر لے کر استعمال ہوئے اور افغان جہاد کے نام پر پاکستان کے ایک خاص سرکاری اور مذہبی طبقے نے اربوں روپے کے اثاثے بنائے۔ اسی طرح وقت نے یہ بھی ثابت کیا کہ بھٹو شہید کے خلاف نظامِ مصطفی تحریک،ججزبحالی تحریک اور پاکستان تحریکِ انصاف جیسے مردہ گھوڑے کو اٹھانے،کھڑا کرنے اور پر دوڑانے میں امریکہ خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا براہِ راست ہاتھ تھا۔باالفاظِ دیگر مذکورہ تحریکیں امریکن اسپانسرڈ تحریکیں تھیں۔
اسی حوالے سے کچھ عرصہ بعد منظرِ عام پر آنے والی دستاویزات یہ بھی حقیقت بھی ثابت کریں گی کہ اس ملک کے غریب عوام جن کے بچے جس وقت اور خوارک کی کمی سے مر رہے تھے،جب بے روزگاری عام تھی نوجوان ڈگریاں ہاتھو ں میں لیئے در بدر پھر رہے تھے اور جن کا بس چل رہا ہے وہ اس ملک سے نکل جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھ رہا تھے، ایسے میں انہی غریب پاکستانیوں کے نام پر اربوں نہیں بلکہ کھربوں ڈالرز کے غیر ملکی قرضوں سے کون کون عیاشیاں کرتے رہے اور بیرون ممالک کن کن کی جائیددادوں میں اضافہ ہوتا رہا۔
موجودہ استعمار یا نیا colonialism محکوم اور غریب اقوام یا پاکستان جیسے ممالک کو غلام در غلام بنانے کے لیئے اپنے نئے ہتھیار یعنی”غیر ملکی قرض“ کے زریعے غلامی کی زنجیروں میں کب تک جکڑے رکھے گا اور وقت کے ساتھ ساتھ منظرِ عام پر آنے والی ہوشرباء دستاویزات کے زریعے ہمیں پڑھنے کو کیا کیا ملے گا؟بس دیکھتے رہیئے کیونکہ ہم بس دیکھ ہی سکتے ہیں عملی طور پر کر کچھ بھی نہیں سکتے اور یقینا استعمار بھی یہی تو چاہتا ہے۔
واپس کریں