دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
میں ٹوٹتی سانسوں کی فصیلوں پہ کھڑاہوں۔ سمیع اللہ ملک
No image کم از کم ہمیں مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے کچھ دوسرے شورش زدہ علاقوں میں خفیہ کارروائیاں تیز کر دینی چاہیے تھیں، لیکن سابق رہنمائوں کی طرح عمران خان اور جنرل باجوہ نے کشمیر کے تنازع سے متعلق اپنے پیشروؤں کی معذرت خواہانہ اور دفاعی پالیسی کو جاری رکھا اوریہ بھی حقیقت ہے کہ مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے متعلق مودی کے پلان کاجنرل باجوہ اورعمران خان کوعلم تھا۔ دونوں کو دورہ امریکا کے موقع پراس سے آگاہ کردیاگیاتھااوران سے کہاگیاتھاکہ وہ لوگوں کو کنٹرول کریں۔ جنرل باجوہ کوجواسی سال نومبرمیں ریٹائر ہورہے تھے۔پینٹاگون کی طرف سے اکیس توپوں کی سلامی،اس بات کا واضح اشارہ تھاکہ انہوں نے رضامندی دی تھی جس پرفیصلہ کیا گیا کہ انہیں تین سال کی توسیع دی جائے گی۔
دراصل جولائی2019ء عمران خان اور جنرل باجوہ کے دورہ واشنگٹن کے دوران ٹرمپ اور پینٹاگون کوایک خاموش انڈراسٹینڈنگ دی گئی تھی جبکہ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کامقصد آزاد کشمیر اورگلگت بلتستان کی حفاظت کی ضمانت دینا تھا۔یہ سب سے زیادہ افسوسناک ہےکہ ہمارے نام نہاد رہنمائوں نےسسکی بھرے بغیربھارت کو مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کرنے کیاجازت دی۔ سفاک بھارت کوسب سے بڑی فوجی چھائونی اورکھلی جیل میں بندکشمیریوں کی نسل کشی اورعصمت دری کرنےکی اجازت مل گئی۔ مودی کو کشمیرکی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کا کھلا لائسنس دے دیاگیا۔ غیرمسلموں کو زمینیں خریدنے اورمسلمان کشمیری لڑکیوں سے شادی کرنے کی اجازت دیدی گئی ہے۔اب غیرملکی کاروباری ٹائیکونزکے ساتھ جی ٹوئنٹی کوبھی وادی کشمیرمیں سرمایہ کاری، کاروباری سلطنتیں اور ریزورٹس بنانے کی اجازت دیدی گئی ہے۔
پاک بھارت لائن آف کنٹرول پر سیزفائر کا اعلان کردیاگیا۔جب یومِ پاکستان 23مارچ 2021 ء کومودی نے عمران خان کے نام خط لکھاتودفترخارجہ اسلام آبادکےکان کھڑے ہو گئے۔ امریکامیں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف العتیبہ کے ذریعہ یہ خبرنکلی کے دبئی میں فیض حمیداوراجیت ڈوول کے درمیان خفیہ بات چیت بہت آگےجاچکی ہےجس کے نتیجے میں یہ خط موصول ہواہے ۔اس خط کے موصول ہونےکےایک دن بعدجنرل باجوہ نے عمران کو بتایاکہ مودی 9اپریل 2021ء کوپاکستان آئیں گے۔ مودی پہلے تو بلوچستان کے پہاڑی علاقے لسبیلہ میں دریائے ہنگول کےکنارے ہنگلاج ماتاکے مندرجائیں گے اوروہاں ہندوؤں کے سالانہ میلے میں شرکت کریں گے پھر اسلام آبادآئیں گے اورعمران کے ساتھ ملاقات میں پاک بھارت تجارت اورکرکٹ میچوں کی بحالی کااعلان کریں گے۔عمران کوبتایاگیاکہ ہنگلاج ماتاکے مندرکوبلوچستان میں بی بی نانی کی زیارت بھی کہاجاتا ہے اورکرتارپور راہداری کی طرز پر راجھستان اور بلوچستان کے درمیان ہنگلاج راہداری بھی کھولی جاسکتی ہے۔ عمران نے جب مسئلہ کشمیرکے مستقبل کےبارے میں پوچھاتوفیض حمید نےکہاکہ20 سال تک مسئلہ کشمیرجوں کاتوں رہے گااور20سال کے بعدکوئی حل تلاش کریں گے۔
اس موقع پرشاہ محمود قریشی نےخان کو خبردارکیا کہ ہم پاکستان پارلیمنٹ میں اس کا کیاجواب دیں گے؟ہم نے الیکشن بھی لڑنےہیں ہم پرکشمیرفروشی کاالزام لگ جائے گا۔ جولائی 2021ء میں آزادکشمیرمیں عام انتخابات ہونےوالے تھے۔ خدشہ تھاکہ اگراپریل میں مودی نے پاکستان کادورہ کیاتوجولائی میں تحریک انصاف کاآزاد کشمیر سے صفایاہوجائےگا۔ اس دوران اقتصادی رابطہ کمیٹی بھارت کےساتھ تجارت کھولنےکافیصلہ کرچکی تھی لیکن شاہ محمودقریشی نے ناصرف بھارت کے ساتھ بیک چینل مذاکرات سےلاعلمی ظاہرکردی بلکہ وفاقی کابینہ نےبھارت کے ساتھ تجارت کی بھی مخالفت کر دی۔جس کے ردِٓعمل میں باجوہ نے شدیدغصے میں عمران سے شکائت کرتے ہوئے کہاکہ’’ہم نے اب تک جوکچھ بھی کیا،آپ سے پوچھ کرکیا‘‘ جواب میں خان نے کہا ’’فکرمت کریں، ذرا آہستہ چلیں اوراپوزیشن کوفوری اندر کردیں‘‘۔ ادھرقریشی نےباجوہ کے غصے کوٹھنڈا کرنے کیلئے دفترِخارجہ بلایااورکہاکہ جب تک بھارت5 اگست2019ء کے اقدامات واپس نہیں لیتا تو بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو پاکستان کی شکست سمجھا جائے گا، لیکن دوسری طرف ستمبر 2021 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سیشن میں کشمیرپر اپناروایتی مؤقف دہراکرباجوہ کومایوس کردیالیکن اس کے باوجود باجوہ بیک ڈورچینل کےذریعے بھارت کو یقین دلاتے رہےکہ اپریل میں بریک تھرو ہو جائے گا۔
مارچ2022ء میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتمادآئی توعمران باجوہ کوایک اور ایکسٹینشن کے ساتھ ساتھ ان کی تمام باتیں ماننے کیلئےتیارہوگیا۔ باجوہ اپنےہی لائے ہوئے وزیر اعظم کوہٹانانہیں چاہتاتھا،صرف جھٹکادیناچاہتاتھا لیکن جھٹکاذرا شدیدہوگیا۔خان نے بھی جوابی جھٹکے دینےشروع کردیئے اورلڑائی دونوں کے قابوسے باہرہوگئی اور ان دونوں کی اقتدارکی مجرمانہ ہوس نےملک کوتباہی کےدھانے پرلاکھڑاکردیا۔اس لڑائی میں سب سے براسبق تویہ ہے کہ کس طرح سی آئی اے نے اپنے مقاصدکی تکمیل کیلئے یہ جال پھیلایا اوران دونوں افرادسمیت دیگرسیاسی جماعتوں کواپنے دامِ فریب میں پھانس رکھا ہے۔
یہ بھی افسوسناک حقیقت ہے کہ عمران خان نے اپنے پونے چارسالہ دورمیں سابق حکومت پر الزام تراشی اورسیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے پر توجہ مرکوزرکھی۔معیشت کوبہتربنانے یااہم اصلاحات کرنے یامنقسم قوم کواکٹھاکرنےیا کشمیریوں کے دکھ کوکم کرنے پربہت کم دھیان دیاگیا۔تب ملٹری اسٹیبلشمنٹ بھی ایک پیج پر تھی۔ امریکاکوخوش کرنے کیلئے ’’سی پیک‘‘ کو منجمد کرنا ایک مجرمانہ فعل تھااورپاکستان کےسب سےقابل اعتماددوست چین کوپریشان کرنےکی قیمت چکانی پڑی۔
2018ء کے الیکشن میں دھاندلی نےایک ایساگنداکھیل شروع کیاجس کے نتیجے میں ابھی تک سیاست میں گندگی پھیلی ہوئی ہے ۔فوج کوہمیشہ سیاست سےدوررہناچاہئے اور سیاستدانوں کوتمام اہم فیصلے پارلیمینٹ میں کرنےچاہئیں۔اب بھی وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں سیاسی بلوغت سےکام لیتے ہوئےاپنےدرمیان کے اختلافات کو ذاتیات سے بلند ہوکرملکی مفادکیلئے بہترفیصلے کرنےمیں ایک دوسرے کے معاون بنیں وگرنہ بیرونی ملکوں کواس کاذمہ دارٹھہراکرملکی مسائل سے نجات حاصل نہیں کی جاسکتی۔
وقت گزرتے دیرنہیں لگتی،بالآخرآج کے مضبوط کردارجب آئندہ کاماضی ٹھہریں گے توانہیں یہ بات یادرکھناہوگی کہ کہیں کل کلاں ان کوکسی تہوارمیں صفائی پیش نہ کرنی پڑجائے جس طرح اپنے وقت کے انتہائی طاقتورباجوہ کوایک ہاتھ بزرگ صحافی مجیب الرحمان شامی کے کندھے پراور دوسرے ہاتھ میں قرآن تھامے اپنی ماں کی قبرکی قسم اٹھانی پڑگئی کہ اس نے نہ تونوازشریف کوملک سےباہربھیجااورنہ ہی عمران کواقتدارسے محروم کرنے میں کوئی کرداراداکیا۔
تاریخ پرنگاہ ڈالیں تواس طرح حکومتوں کوگرانے اورتختہ الٹنےکاجو سلسلہ1952ء میں مصرسے شروع ہواتھا،وہ آج بھی مسلمان ممالک میں کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے لیکن میرے رب کااپناپروگرام ہےکہ اس صدی میں سب سےبڑی جارحیت کے باوجود افغانستان میں ایک بڑی رسوائی کاداغ اس کامقدربن گیالیکن سب سے زیادہ تلخ حقیقت یہ کہ جن طالع آزمائوں نے اقتدارمیں آنے کیلئے سی آئی اے کے منصوبے پرعمل کیا،اسی نے ان کوشکست سے دوچاراوران کے ممالک کوتباہ کرکےاقتدارسے الگ کیا۔ ناصر،صدام اور مشرف،اب عمران کے ساتھ باجوہ کوبھی شامل کرلیں،ممکن ہےکل کلاں موجودہ حکمران بھی اسی قطارکا حصہ ہوں جن کوتاریخ ایک عبرتناک مثال کے طوریادرکھے گی کہ انہوں نے بھی عمران اورباجوہ سمیت کشمیرفروخت کرنے میں انتہائی خاموشی سے درپردہ حصہ لیا۔
اے خاک وطن اب تو وفاؤں کا صلہ دے
میں ٹوٹتی سانسوں کی فصیلوں پہ کھڑا ہوں
واپس کریں