پاکستان میں جمہوریت نہیں، آمرانہ طرز حکومت قائم ہے، دی اکانومسٹ
دی اکانومسٹ کی رپورٹ میں پاکستان کے سیاسی نظام پر تنقید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کو انتخابات سے قبل دباؤ میں رکھا گیا جس کی وجہ سے ان کی سیاسی سرگرمیاں متاثر ہوئیں اور متعدد رہنما پارٹی چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔دنیا بھر میں جمہوری نظام کا جائزہ لینے والے بین الاقوامی جریدے “ دی اکانومسٹ” کے انٹیلی جینس یونٹ کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں رائج حکومتی نظام کو ' آمرانہ نظام” قرار دے دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں طرز حکومت جمہوریت کی بجائے آمرانہ ہے۔
دی اکانومسٹ کے انٹیلی جنس یونٹ نے 2023 کی جاری کردہ ڈیموکریسی انڈیکس میں پاکستان میں جاری نظام حکومت کو آمرانہ قرار دیا ہے۔
دی اکانومسٹ کے تحقیقاتی ادارے انٹیلیجنس یونٹ کے مطابق دنیا کے بیش تر ملکوں میں جمہوریت رو بہ زوال ہے۔ جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ Age of conflict کے عنوان سے اس رپورٹ میں 150 سے زیادہ ملکوں میں جمہوریت کے حالات کا ایک مطالعہ کیا گیا ہے۔
ڈیموکریسی انڈیکس کی 2023 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سال ایشائی ممالک میں پاکستان واحد ملک ہے جس کا درجہ “ ہائبرڈ' نظام “ سے گر کر “ آمرانہ نظام “ میں تبدیل کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان ریٹنگ کے حوالے سے تنزلی کا شکار ہوا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آمرانہ حکومتی نظام غیر شفاف انتخابات، شخصی آزادیوں پر پابندیاں، اور سرکاری یا اشرافیہ کا میڈیا پر کنٹرول کو ظاہر کرتا ہے۔
رپورٹ میں شامل ممالک کو چار اقسام کی درجہ بندی میں رکھا گیا ہے۔ جنہیں مکمل جمہوریت، ناقص جمہوریت، ہائبرڈ حکومت اور آمرانہ حکومت کا نام دیا گیا۔ درجہ بندی کی اس تقسیم کی رو سے پاکستان کا شمار اگر چہ تیسرے درجے یعنی نیم یا مخلوط طرز کی جمہوری حکومتوں میں ہوتا ہے۔
گذشتہ برس دی اکانومسٹ کی رپورٹ میں پاکستان کا جمہوریت میں 105 واں رینک تھا اور یہاں قائم حکومت کو ایک ’ہائبرڈ‘ یعنی مرکب نظامِ حکومت قرار دیا گیا تھا۔
تازہ ترین رپورٹ میں پاکستان کی رینکنگ میں تنزلی دیکھنے میں آئی ہے اور اب پاکستان گذشتہ سال کی رینکنگ میں 11 درجوں کی تنزلی کے بعد اقوام عالم میں 118 نمبر پر آ گیا ہے۔ گذشتہ برس ڈیموکریسی انڈیکس میں پاکستان کا سکور 13۔4 تھا جو اس برس کم ہو کر 25۔3 ہو گیا ہے۔
رپورٹ میں پاکستان ایشیا کا واحد ملک ہے جسے جمہوری عمل کے حامل ممالک سے ریٹنگ میں ہابرڈ درجہ بندی سے تنزلی کے بعد آمرانہ طرز حکومت کی فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے۔
دی اکانومسٹ کے مطابق ایسے ممالک جہاں صاف و شفاف انتخابات نہیں ہوتے۔ شخصی آزادیوں پر پابندیاں ہوتی ہیں۔ میڈیا یا تو صرف سرکاری ہوتا ہے یا پھر اشرافیہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے وہ آمرانہ نظام کے حامل ملک کہلاتے ہیں۔اُن کے مطابق ایسے ممالک میں حکومت پر تنقید کے بُرے نتائج سامنے آ سکتے ہیں اور یہاں عدلیہ بھی آزاد نہیں ہوتی۔
دی اکانومسٹ کے مطابق ایسے ممالک میں جمہوری ادارے ضرور ہوتے ہیں لیکن اُن کی اہمیت کم ہوتی ہے۔رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ عوام کی انتخابی عمل میں عدم شرکت کا بڑھتا رجحان ان کے جمہوری نظام سے مایوس ہونے کی نشان دہی کرتا ہے۔ عالمی سطح پر میڈیا اور اظہار رائے کی آزادی کی بگڑتی ہوئی صورت حال بھی جمہوری ممالک کے جمہوری عمل پر ایک بد نما داغ ہے۔
پاکستان کے درجے میں کمی کی ایک وجہ اس انڈیکس میں بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ فوج کا سیاسی اثر و رسوخ حد سے زیادہ ہونے کا مطلب ہے کہ انتخابات آزادانہ، منصفانہ یا مسابقتی ہونے سے بہت دور ہیں۔
واپس کریں