سحر کا اک نیا منظر دکھانے آیا ہوں۔ یہ رات کٹ کے رہے گی بتانے آیا ہوں۔ جو ہم سے روٹھ چکے ہیں وہ خواب سے منظر۔ تمہاری آنکھ میں پھر سے بسانے آیا ہوں۔
وقت بہت تیزی سے اپنے اختتام تک پہنچنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے آج سے40 برس قبل دلی کی تہاڑ جیل میں جس مرد حر کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا تھا اس کا مقدس لہو آج ایک نئے انقلاب کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ منقسم ریاست جموں کشمیر کی ترہگام وادی میں غریب کاشتکار غلام قادر بٹ کے ہاں جنم لینے والامقبول بٹ بکھرے جموں کشمیر کی یکجہتی اور حریت کا باعث بنے گا یہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔
تب کی یہ کہانی ہے جب سارے مصلحتوں اور مفادات کا شکار ہو کر سری نگر اور مظفر آباد کے لولے لنگھڑے اقتدار کی دوڑ میں لگے ہوئے تھے یہ بات بھلا دی گئی تھی کہ ڈیڑھ سو سال قبل سر کٹوا کر اور زندہ کھالیں کھنچوا کر شمس خان سدھن، سبز علی خان، ملی خان، راجولی خان اور انکے ساتھیوں نے کس مقدس مشن کا آغاز کیا تھا۔کیپٹن حسین خان،کرنل حسن مرزا کیپٹن بابر، خان آف منگ، کا سفر کیا تھا؟ انہی سوچوں نے مقبول بٹ کو ایک انوکھی اور منفرد راہ کا مسافر بنا دیا۔ اس کی حیثیت موتیوں کی مالا میں گوہر ہیرے کی سی ٹھہری، وہ اکیلا نہیں تھا اسے حق پرستوں کا کارواں ملا۔ استور کے پیدائشی قائد تحریک امان صاحب،میرپور کا فرزند عبدالخالق انصاری پونچھ کا وقارسردار رشیدحسرت باغ کی آبرو سردار اکرم مظفر آباد کی شان میر ہدایت للہ مہاجرین کی جانیں میجر(ر) امان للہ ، میر عبدالمنان ڈاکٹر فاروق حیدر،ڈاکٹر غلام احمد جراح میر عبدالقیوم، جی ایم میر، اکرام جسوال جیسے کئی ایک تھے سب کے جذبے جواں سب کی نیتیں کھری لیکن وسائل کی کمی رابطوں کا فقدان منزل کے حصول میں رکاوٹ تھا۔ پاک بھارت سرحد جموں سوچیت گڑھ کی مٹی کو حلف بنا کر ایک نئے عزم سے میدان میں کودنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب نیلسن منڈیلاچہ گویرا فیڈرل کاسترو کا کردار سبق دے رہا تھا کہ آزادی لہو مانگتی ہے جب مرنے کا ڈھنگ آئے گا تب جینا سیکھو گے۔ مقبول بٹ اس کارواں کا امام بنا اس نے خود میدان کا رزار میں اترنے کا فیصلہ کیا اس راہ میں گلگت کا سپوت اورنگزیب قربان کر کے جدوجہد کی ابتداء کی تو ساتھ وحدت کشمیر کا درس بھی دیا۔ ان دیوانوں نے گنگا ہائی جیک کیا پہلی بار دنیا برسوں بعد کشمیر سے آشنا ہوئی۔ذوالفقار علی بھٹو نے پیشکش کی کہ مقبول بٹ پیپلز پارٹی میں آ جائے آزاد کشمیر کا وزیر اعظم بنا دیا جائے گا۔ مگر مقبول بٹ نے بھٹو سے ملاقات میں یہ پیشکش ٹھکرا دی مسلم کانفرنس کے سپریم ہیڈ نے دعوت دی کہ یہ کاروائی ان کے گروہ المجاہد سے منسوب کر دو۔ مقبول بٹ انکاری ہو گئے دنیا کو پہلی بار پتہ چلا کہ کشمیریوں کے پاس بھی کوئی قیادت ہے جو رکنا بکنا جھکنا نہیں چاہتی۔
مقبول بٹ بھارتی سورماؤں کے ہاتھوں گرفتار ہوا لیکن جیل توڑ کر بھاگ نکلا۔ ننگے پاؤں برف پر چل کر جب آزاد کشمیر پہنچاتو بھارت کا جاسوس کہہ کر زندان میں ڈال دیا گیا یہاں کے قید خانوں میں اس سے کیا سلوک ہوا قلم لکھنے سے قاصر ہے وہ یہی کہتا رہا میں پاکستان یا ہند کا ایجنٹ نہیں اپنے وطن کا سپاہی ہوں کہیں سابق وزیر اعلیٰ شیخ ثانی فاروق عبدللہ دہلی کی ایما پر سری نگر کے کٹھ پتلی اسمبلی میں قائد ایوان بنے رہے تو کہیں سید علی گیلانی قائد حزب اختلاف بن کر جمہوری قدریں مضبوط کرتے رہے ادھر بھی نام اور چہرے بدلتے رہے حاکمیت راول پنڈی اور وزارت امور کشمیر کی ہی رہی سری نگر میں مولوی فاروق نے اندرا گاندھی کا استقبال کیا تو مولوی فاروق اور شیخ ثانی فاروق عبدللہ ڈبل فاروق اتحاد بھی بنا لیکن آخر گیارہ فروری کو مقبول بٹ پھانسی چڑھا دیا گیا پھانسی گھاٹ پر بھی وہ ایسے ہی مسکراتا اور للکارتا رہا جیسے کل صدام للکارا کسی کی طرح نہ اسے چارپائی پر ڈال کر پھانسی گھاٹ لایا گیا نہ کہیں اس نے معافی مانگی البتہ یہ ضرور کہا مجھے معلوم ہے کہ مجھے انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن مجھے یقین کامل ہے کہ یہ منحوس خونی لکیر ضرور مٹے گی اور میرے وطن تو ضرور آزاد ہو گا۔
تیرے امکاں میں اگر ہے لا کوئی میرا جواب
اے بساط جبر ہستی لے اٹھا جاتا ہوں میں
مقبول بٹ کی پھانسی کے چار سال بعد اسکی راہوں پر ایک نیا سفر شروع ہو چلا اس کی جوانی کے دوست امان صاحب اس نئی جنگ میں قائد تحریک ٹھہرے۔وہی مقبول بٹ کا فلسفہ جنگ وہی نعرہ وہی بندوق وہی عزائم، اشفاق مجید حمید شیخ غلام نبی بٹ یٰسین ملک جاوید میر اعجاز ڈار بلال صدیقی ڈاکٹر عبدالاحد گرو ارشد کول شبیر گرو جاوید جہانگیر ہمایوں آزاد عبدالقادر راتھر ایس ایم افضل ملک انور عبدالاحد وازہ ناظم الدین بابر،امام دین، رشید حسرت، ڈاکٹر فاروق حیدر، راجہ مظفر،نام الگ الگ چہرے مختلف لیکن کردار ایک فکر ایک عزم ایک دیکھتے ہی دیکھتے سہہ رنگ علم تلے سارا کشمیر مقبول بٹ کا روپ دھار گیا۔
مقبول بٹ کی پامردگی شجاعت و قربانی قوم کشمیر کے لیے ہمیشہ مشعل راہ رہے گی۔ مقبول بٹ نے اکیلے جدوجہد شروع کی لیکن جلد ساری قوم نے اس راہ پر چل کر تاریخ ساز عوامی انقلاب بپا کیا۔ شہادتیں آزادی پسندوں کو شہید ہونے کا درس دیتی ہیں۔ شہادت تحریک کوجنم لیتی ہے۔ مقبول بٹ کی شہادت نے اسے تاریخ کے صفحات میں دائمی حیات دی۔ وہ سوچ بن کر قوم کے اجتماعی شعور کی آبیاری کر رہا ہے۔ مقبول بٹ کی روح آج بھی سامراجی قوتوں اور ان کے ایجنٹوں کے حساب پر خوف کے سائے کی طرح منڈلا رہی ہے۔ جس سے پیچھا چھڑانا ناممکن ہو چکا۔ مقبول بٹ مزاحمت اور بغاوت کا ثبوت اور استعارہ ہے۔تو تحریک آزادی کشمیر کی روح بھی زندگی جیسی قیمتی متاع قربان کر کے اس نے نسلوں کو درس دیا کہ آزادی اصل متاع ہے۔ اس نے زندگی مادر وطن کی آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل اور خوشحالی کے لیے وقف کی۔ آزادی کا علمبردار مقبول بٹ اتنا ہی مقبول عام اور عالمگیر ہوتا جار ہا ہے جتنا اس کو گمنام اور محدود کرنے کی سازشیں کی جاتی رہیں۔ وہ غیرت مند جس نے غلامی میں آنکھیں کھولیں، سامراجی مظالم دیکھے تو درد پر آہیں بھرنے اور خون کے آنسو بہانے کے بجائے کچھ اور کرنے کا عہد کیا۔ خود تکلیف میں مبتلا ہو کر اوروں کو آرام دینے والوں کی تعداد دنیا میں کم رہی۔ مقبول بٹ کا تاج ٹھکرا کر تختہ دار پر لٹک جانا منفرد بات ہے۔ عہدوں کو اس نے اہمیت نہ دی۔ کیونکہ وہ اپنے لیے نہیں قوم کے لیے جینا چاہتا تھا۔ جب پاکستان یکجہتی کشمیر کے نام پر جلسے جلوس کر رہا تھا اور 11فروری یوم مقبول کے حیثیت مٹانے 05فروری کی کال دی گئی۔عملی اظہار یکجہتی کرنے تیرے دن 11فروری 1990کو لیاقت حسین اعوان، فرخ رضا قریشی، سجا دانجم کی صورت تجھ سے وفا نبھا کر چکوٹھی میں خونی لکیر پاؤں تلے روند کر اپنی جانوں کی قربانی کے ساتھ تیری حقیقی پیروکاری ثابت کی کہیں وہ ادریس خان کی صورت درگاہ حضرت بل کو مقبولی غسل دے گیا بے وطن الطاف شاہ تھا کہیں اس کا نام اپنوں کی گولیوں سے راجہ سجاد، خانی زمان، فرید احمد، اشتیاق احمد، مشتاق راٹھور، خلیل الرحمان ٹھہرے کہیں وہ گونجا کہیں للکارا کہیں جھپٹا کہیں مارا آخر وہ خود امر ہو گیا تو کہیں چاہنے والوں کو بھی امر کر گیا آج 40 سال گزرنے کے بعد اس کا چہرہ میرے سامنے ہے اس کے دائیں شہدائے اول اور مجاہدین اول سردار شمس خان سدھن، سبز علی خان، ملی خان، راجولی خان اور انکے ساتھی ہیں بائیں طرف گیارہ فروری 90،92،93 کے شہداء خاص کر 5اگست سے جبراً نافذ کرفیو کے دوران حالیہ کے شہدا اور اس کے پیچھے اندازاََ پانچ لاکھ شہداء کا ایک سمندر ہے۔ مقبول بٹ کا اپنے نام لیواؤں سے سوال ہے کہ میں تمہیں کہہ آیا تھا کہ اس جنگ کو ہر محلے ہر گلی، ہر مکتب، ہر خطے میں پھیلا دو لیکن یہ کیا تم سری نگر اور آزاد کشمیر تک محدود ہو؟ ہو بھی آزاد کشمیر کے چار ہزار مربع میل علاقے میں کوئی منظم تنظیم نہیں۔ کسی کا وجود ایک شہر میں ہے تو دوسرے میں وجود تک نہیں۔کبھی لداخ راجوری، جموں، ڈوڈہ، پونچھ گلگت، بلتستان، غذر، گانچھے استور میں تمہاری سرگرمیاں نہیں نظر آتی ہیں نما ئندگی کے د عو یداروتم میں سے کوئی خوش قسمت ہی ہو گا جس کے اپنے محلے والے اس کے ساتھ ہوں مقبول بٹ نے کہا تھا کہ”میں گہرا مذہبی آدمی نہیں لیکن یہ سمجھتا ہوں کہ مذہب انسان کی زندگی میں ”بنیادی“کردار ادا کرتا ہے“ لیکن تم میں اکثریت لادین بن چکی ہے اور دعویٰ سیکولر ہونے کا کررہے ہو تمہارے دعوے مقبول بٹ کی پیروی کاری کے ہو رہے ہیں۔ تم سے گلگت بلتستان الگ کیا جا رہا ہے۔ تم وحدت کشمیر کے دعویدار ہونے کے باوجود اس علیحدگی کو رکوانے عمل کی دنیا میں کچھ نہیں کر پا رہے۔ دنیا میں نہ ہوتے بھی ہر سال گیارہ فروری کو یہاں بھی سڑکوں پر ہوتا ہوں ہر مذہب، ہر فرقہ میرے گیت گاتا ہے تم نے40 سالوں میں کیا کیا؟ میرے گیت گانے والو عراق اور شام کا منظرنہیں دیکھتے ہو۔ افغانستان کا میدان نہیں دیکھا شیعہ سنی سب مسلمان کہلانے کے باوجود گن گن کر مارے گئے؟ تم سارے خودمختار وطن کے دعوے کرتے ہو لیکن ایک قومی انقلابی پارٹی نہیں بنا سکے صرف اس لیے کہ ایک سے ہٹ کر باقی سب کو عہدے چھوڑنے پڑھیں گے اور دعوی مقبول بٹ کے جانشین ہونے کا ہے کیا تمہیں دشمن نہ اس طرح مارے گا؟ تقسیم کشمیر کا شور مچانے والو۔ کشمیر تو 47 ء سے تقسیم ہے اس کی یکجہتی کے لیے تم نے کیا کیا؟ میرے چاہنے والو کبھی گریبان میں جھانک کر دیکھا ہے کہ تم کتنے منظم ہو؟ کہاں تک مقابلہ کراؤ گے؟ میں نے دیکھا مقبول بٹ کہہ رہا ہے چلا چلا کر نعرے لگانے والو، بہترین دلیل کی تقریر کرنے والو۔ تم سے تو اچھا جموں کے وید بھسین اور کے۔ ڈی سیٹھی (کرشن دیو سیٹھی) تھے جو غیر مذہب ہونے کے باوجود جموں کی سر زمین کو تقسیم کشمیر کے خلاف سامنے لا چکے؟ گزشتہ سے پیوستہ سال تہاڑ جیل دہلی میں مقبول بٹ کی قید کے دوران موجود رہنے والے جیل کے آفیسر کا BBCپر دیا جانے والا انٹر ویو قابل غور ہے۔ جس میں اس آفیسر نے کہا کہ وہ مقبول بٹ کے زیر مطالعہ قرآن مقدس، جاء نماز سمیت دیگر سامان جن میں کتابیں بھی شامل تھیں کسی رشتہ دار یا عام لوگوں کے حوالے اس لیے نہ کر پایا کہ اس سے اور اشتعال پھیلتا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ مذہب کو بنیاد ماننے والا نہ تھا تو پھر قرآن کا وہ کیونکر مطالعہ کر رہا تھا؟؟ اس صبح بھی اس نے عام دنوں کی طرح یکسوئی سے نماز کیوں پڑھی۔ بھگت سنگھ کی طرح پھانسی گھاٹ پر چڑتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کا نعرہ کیوں نہ لگایا۔ اگر اس کی موت کا سبب خود مختار ملک مانگنے کے بجائے روشن خیالی تھی تو پھر کیونکر یوسف تاریگامی کو بھارت پھانسی نہیں دے رہا۔ سوشل میڈیا پر جنگ آزادی لڑنے والے اور خود کو مقبول بٹ کا پیروکار کہنے والے نوجوان برہان وانی کو کیونکر مقبول بٹ کا متبادل مسئلہ کشمیر کاایک وکیل ملک پیش کر رہا ہے۔ مقبول بٹ کے دن پر کیونکر میڈیا میں بلیک آؤٹ کیا جاتا ہے۔ یہ ملک ہمارا ہے، اس کی حفاظت ہم کریں گے، اس پر حکومت ہم کریں گے۔ اس مدعے کا کیا مقصد تھا اگر وہ مسلح جدوجہد کا مخالف تھا تو گنگا، کیوں ہائی جیک کیا۔۔میں نے دیکھا کہ میرے قائد کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں وہ روتے ہوئے کہتے ہیں میں نے کسی بھی غدار اور ایجنٹ نہیں کہا (ماسوائے انکے جو کھل کر آزادی کی مخالفت کرتے تھے) میں نے نفرتوں کے بجائے محبت کی کہانی ہر ایک کو سنائی تم کیسے ہوایک دوسرے کو ایجنٹ غدار منافق کہہ رہے ہو تم میں اتنی ہمت نہیں دیکھی کہ میرا نام بھی لیا ہو اور کھل کر تقسیم کشمیر روکنے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔جب 5اگست 2019 کو بھارت نے ایک سخت گیر فیصلہ کیا تو تیرے نام لیواؤں کی اکثریت مصلحت اور خاموشی میں چلی گئی۔ فروری کی شروعات ہوئیں تو اسلام آباد نے کھل کر یہ تو کہا کہ آزاد کشمیر کو پاکستان میں ضم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں لیکن جب شمالی کشمیر (GB) کی آئینی حیثیت کا سوال کیا گیا تو عجیب سی خاموشی دکھلائی گئی۔ جو اصل میں کچھ اور پیغام تھا لیکن تیرے نام لیوا اس پر بھی چپ ہیں انہیں محکمہ موسمیات کی طرف سے GB کو پاکستان کا حصہ کہنے اور دکھانے اور کشمیر کو الگ الگ دکھانے کا موقف بھی مردہ ضمیر جگانے پر مجبور نہ کر سکا۔ مقبول بٹ آج بھی عالم، ارواح سے پیغام دے رہا ہے۔ میرے نعرے لگاتے ہو اوراسلام آباد سے وظیفے بھی لیتے ہو بہت اصول والو! افسوس کہ میرے عمل سے تم نے سبق نہیں سیکھا۔ دہلی اور اسلام آباد سے وظیفے بھی لیے جا رہے ہو اور ہاؤس رینٹ بھی۔ کہیں کہیں انا پرستی بھی اتنی جتنی دشمنی بھی نہیں بنتی۔ بیرونی ممالک اندرون پاکستان اور اندرون ہندوستان سفر کے لیے ہوائی ٹکٹ بھی لیے جاتے ہیں سفری اخراجات کی وصولی بھی انہی سے بنک بیلنس بھی بڑھائے گئے محل مارکیٹں اور گاڑیاں بھی خریدی جا رہی ہیں غیر نظریاتی لو گوں کو سیاسی پناہ دلوانے معمولی مفادات کے عوض تیرے کارواں کا سپاہی بنا کر اقوام عالم کے آگے پیش کیا جاتا ہے اور تجھ سے وفا ایسی کہ بے وفائی کو بھی مات دے دی۔ تو سیدھا سادہ بلکہ عام سا Freedom Fighter تھا۔ تیرے نام سے آج تحریک آزاد ی کشمیر کی پہچان ہے۔ تیری اولاد، موروثیت پر اس تحریک کی قیادت کرنے بھی انکاری ہے۔ تیرا لخت جگر برطانیہ میں دیہاڑی داری کررہا ہے۔ اور دوسری طرف آزاد علاقے میں بیٹھ کر اُس مقبوضہ خطے کی تحریک میں سپریم کمانڈرکا ”فرض“ ادا کیا جارہا ہے۔ جس سپریم کمانڈر کے اپنے بیٹے اُسی مقبوضہ خطے میں ڈاکٹر اورایگریکلچر آفسیر دشمن کے اداروں میں بنا جارہا ہے۔ اس کے برعکس تیرا پیروکار یاسین ملک تیری طرح تہاڑ جیل سے ہی تختہ دار پر لٹکنے تیار ہے قوم پرستی کا یہ عالم ہے کہ 40سال گزرنے کے باوجود تہاڑ جیل دہلی میں غیر مسلم قیدی 11فروری کو تجھے خراج عقیدت پیش کرنے موم بتیاں جلا تے ہیں تو مسلمان قیدی، جنت میں بالا خانے میں جگہ ملنے دُعایہ تقاریر کرتے ہیں کہ تیری یہ عظمت آزادی کشمیر چاہنے والا غیر مسلم کشمیری بھی تجھے اپنا قومی ہیرو قرار دیتا ہے۔ مقبول بٹ تو سیدھا سادھا ایک آزاد ملک اور خود مختار حکومت کی مانگ کرنے والا Nationalist تھا۔ جیسے آج امریکہ کیخلاف لڑنے والے طالبان،Nationalistہیں، یا پھر ماضی میں مقبوبٹ کا روپ، چہ گویرا فیڈرل کاسترو نیلسن منڈیلہ،عمر مختار ملا عمر، امام خمینی،کرنل قذافی کا تھا ۔ تیر ی عظمت کی دلیل یہ ہے کہ نیشنلزم کو غلاظت کہنے والے تجھے خراج عقیدت پیش کیے بغیرنہیں رہ سکتے۔ جو تیرے مقابل تیرے ہی گیت گانے والے ایک معصوم بچےبرہان وانی کو"متبادل"ظاہر کر رہے ہیں آج تجھے اپنے تعلیمی ادارے کا فارغ التحصیل قرار دے کر اپنی نسبت ظاہر کر کے انگلی کٹوا کر شہیدوں میں نام لکھوانے مجبور ہیں وہ بھی کیسے تیرے پیروکار ہو چلے؟؟؟ بس وہ ایساانقلابی تھا۔ جو اپنے مادر وطن پر قابض تمام غیر ملکیوں کو نکال کر انصاف پر مبنی خوشحال معاشرہ قائم کرنا چاہتا تھا۔ کیا یہ تجھ سے منافقت نہیں۔تو نے جب یہ کہا کہ مذہب انسانی زندگی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے اور تیری زندگی بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ تو اپنے دین کی پیروکاری خلوص سے کرنے والا ایک شخص تھا اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ ہر سال تیرے ماننے اور چاہنے والوں میں اضافہ ہی ہو رہا ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ تیری پیروکاری کرنے والوں میں ایسے بھی شامل ہو چلے جنہوں نے لفظ مذہب کو ہی اپنی ڈکشنری سے نکال دیا۔ تیرے نام کو مٹانے 5فروری کا ناٹک رچا یا جاتا ہے اور آقاؤ ں کو خو ش کر نے اس ناٹک میں بھی حصہ داری کی جاتی ہے۔ تا کہ کئی تنخواہ رک نہ جا ئے۔ مجھے شر م آ تی ہے کہ تنخواہ دار آ ج تیرے مشن کے خو د کو وارث جتلا رہے ہیں۔ وادی والے جموں جانے سے گریزاں اور آزادکشمیر والوں کے لیے گلگت شجر ممنوعہ تیرے مشن کے دعوے پر قوم پرستوں کی کہیں ایک تنظیمیں اور اس کی چئیرمینی کے لیے کہیں دھڑوں کا قیام اور دعوی عظیم قائد تیری پیروکاری کا تو تو وہ تھا جو عدالت میں پیش ہونے جب گیا تو ایک دوست سے ادھار کوٹ مانگ کر پہن کر وہاں گیا۔ تیرے گھر جب بڑے بڑے آئے تو تیرے پاس جگ تک نہ تھا تو ڈالڈے کے ڈبے میں اعلیٰ حکام اور مہمانوں کو پانی پلایا گیا۔ کدھر تیری درویشی۔ کہان تیری پیروکاری کے دعوے۔ کیسا عجیب منظر ہے کہ لاکھوں کا یہ مجمع مقبول بٹ کے چہرے سے آنسو کرتے ہیں۔ ہم کیا چاہتے آزادی، حق ہمارا آزادی اس پار بھی لیں گے آزادی کے نعروں سے گونج اٹھتا ہے۔ اشفاق مجید وانی، حمید شیخ، جنرل بشارت رضا کی کلاشنکوفیں گرجتی ہیں۔ ڈاکٹر عبدالاحد گرو، شبیر صدیقی عبدالقادر راتھر کی مشاورت ہوتی ہے اچانک مجمع گونجتا ہے۔ گل نواز بٹ کی آواز میدان میں اپنا سماں پیدا کرتی ہے۔ سردار آفتاب ادریس خان کاکا حسین سجاد افغانی، عارف شاہد، وحید نور، شمریز شاذ، عادل ڈار،،فہیم اکرم، فہیم ممتاز، افضل گرو کے ہمراہ مسکراتے ہوئے آتے ہیں اور کچھ اپنوں کے ڈسے ہوئے بھی کئی سے آتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے بہت جفائیں دیکھ لیں، ہم نے بہت زخم سہہ لیے ہمیں خود مختار ملک دو، ایک کروڑ سے زائد لوگ ہیں آزادی کے نعروں سے کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی۔ مقبول بٹ کو کندھوں پر اٹھا لیا گیا اچانک میرے سوچ کہیں اور نکل آتی ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ رات کا منظر ہے لوگ گہری نیند سوئے ہیں سردی کی شدید لہر ہے میں کسی مغالطے کا شکار ہو گیا تھا۔ کشمیر ابھی غلام ہے مقبول بٹ کے نام لیوا بھی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے لگے ہوئے ہیں وہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں۔ ان کے پاس کوئی منظم تنظیم نہیں کوئی متفقہ لیڈر نہیں ان کا اتنا ظرف بھی نہیں کہ وہ مشکل حالات میں 40 واں یوم شہادت ایک ساتھ منا سکیں۔اس دن بھی اپنی انا کی تسکین کے لیے ٹولیوں میں تقسیم ہو کر سڑکوں پر نکلتے ہیں۔ اور نعرہ فتح کی سمت متحد بڑھے چلو، نفرتیں سمیٹتے، محبتیں بکھیرتے بڑھے چلو کا لگا رہے ہیں۔ کیا یہ تیرے ساتھ منافقت نہیں۔ کاش تجھ کو قومی ہیرو ماننے والے چلو اور کچھ نہ سہی آج یہ عہد کر لیں کہ تیرے نام کے ساتھ اب کھلواڑ نہیں کریں گے آج کے بعد کسی غیر ریاستی کو نظریاتی کو بیرونی دنیا میں اپنا کارکن نہ تسلیم کریں گے اُسے معمولی تعلق داری، اور چند پیسوں کی خاطر جھوٹی دستاویز دیکر سیاسی پناہ کی سہولت لینے سہولت کار نہیں بنیں گے نہ جانے تیرے نام لیواؤں کو یہ حساس کیوں نہیں کہ قومی ہیرو ماں کی طرح مقدس ہوتا ہے اور شاید اب اداروں اور انتظامیہ کے مخبر اور اگر کچھ نہ کرسکیں تو تجھ سے نسبت ختم کرلیں۔ میرے عظیم قائد مقبول بٹ بلا شبہ ہم تیرے نام لیوا مصلحت پسند سہی اور کہیں تیرے نام پر دھبہ بھی لیکن تو عظیم اور امر ہے تو سرخرو ہے۔ 40ویں یوم شہادت پر میں پورے یقین اور اعتماد سے لکھ رہا ہوں کہ آخر کاروہ وقت قریب ہے کہ تیری دھرتی ماں جموں کشمیر ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر سامنے آئے گی۔ اس سال ہی اس کی شروعات کشمیریوں کے منقسم خطوں میں آمدورفت سے شروع ہوگی اور شمالی کشمیر گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بڑی زمینی جڑت سامنے آ ئے گی۔ اقوام متحدہ کے لہراتے پرچموں میں ایک پرچم تیرے وطن جموں کشمیر کا ہو گا۔ اور تیری وہی حیثیت ہو گی جو چہ گویرا، نیلسن منڈیلہ، جناح، شیخ مجیب، نہرو، گاندھی، شاہ فیصل اور ابراہم لنکن کی ہے۔ حرف آخر کے طور پریہ لکھنا ضروری ہے کہ آج جب پاک و ہند کے مابین جنگ کے خطرات بھی ہیں اور ہر دو ملکوں میں غربت کا عروج بھی اس سب کا واحد حل مسلۂ کشمیرکا منطقی حل سامنے لانا ہے یہ حل کئی طرح کا ہو سکتا ہے مگر سب کی بقا ء کیلئے صرف ایک راستہ سویزرلینڈ کی طرز پر خودمختار کشمیرکا قیام ہے جو صرف مقبول بٹ کے نظریات کی روشنی میں ممکن ہے لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ مقبول بٹ کامشن مصلحت پسند او ر مفادات پرستوں (وظیفہ خوروں اور اناپرستوں) کے ہاتھوں کبھی پورا نہیں ہو گا۔ایک سال پوری خاموشی زیادہ سے زیادہ کسی جلسے میں تقریر یا اپنی ضرورت کے لیے مظاہرہ یا سوشل میڈیا پر زندہ رہ کر مقبول بٹ کی پیروکاری کا دعوی مقبول بٹ کے خون سے منافقت ہے۔اس وقت جب پانی کا بحران پاکستان کو مشکل سے دو چار کیا ہے۔ اگر حقیقت کی دنیا میں کوئی مقبول بٹ کے فلسفے کو سمجھنے والا ہو تو وہ پاکستان بھارت کو اس بات پر قائل کر سکتا ہے کہ خود مختار کشمیر ہی واحد حل ہے۔ خاص کر پاکستان کو پانی کے بحران سے نجات مل سکتی ہے چونکہ سب دریا کشمیر سے نکلتے ہیں اور جب کشمیری پانی کے وارث بن جائیں گے، ان کا ملک آزاد ہو گا تو پاکستان کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ آج 40سال بعد یہ حوالہ بھی دینا پڑا کہ اتنے سچے اور حقیقی انقلابی کی مقدس قربانی کا ایک تاریک ترین پہلویہ ہے کہ اس کے نام پر ایسے لوگ بھی سیاست کاری کررہے ہیں جو نظریاتی طور پر مکمل طور اس عظیم انقلابی کو نا سمجھ سکے نہ اپنا سکے۔ اسکا ثبوت یہ ہے کہ کوئی ”رہنمائی“ کوئی ”مشاورت“ اور کوئی ”ضرورت“ کے لئے ایسے عناصر کو اپنی صفوں میں ”پروٹوکول“ کیساتھ لا کر بٹھاتے ہیں۔ جو عناصر وحدت کشمیر کے قائل بھی نہیں اور اصل ”ڈیوٹی“ ان کی کوئی اور ہے۔ مقبول بٹ کتنا سیانا تھا جو ان کے لیے برسوں پہلے کہہ گیا تھا۔
میرے خدا مجھے دوستوں سے بچا
دشمن سے میں خود نمٹ لوں گا۔
آج کے دن احتساب کر کے مقبول بٹ کی تقلید کا عہد کرنا چاہیے جس کی صرف ایک صورت ہے کہ گریبان میں جھانکا جائے کہ کیا ہم بھی مقبول بٹ کی طرح، پختہ عقیدے والے مسلمان بھی ہیں کہ نہیں؟ اور کہیں شعوری یا غیر شعوری کسی قابض کے آلہ کار تو نہیں۔ اس حیثیت کے ساتھ مسلسل جدوجہد کی جائے۔مقبول بٹ تیرے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا اعزاز ہو گا کہ پھانسی چڑھتے کشمیر کی آزادی کا جو نعرہ تو نے لگایا تھا وہ آج لاہور اور اسلام آباد سے لے کر سارے بھارت میں کشمیر کے حق میں لگایا جارہا ہے۔ جو خلوص سے مسلسل جدوجہد کرے گا وہ نہ کارکنوں کے سامنے ذلیل ہو گا نہ پس منظر میں جائے گایاسین ملک اور فاروق ڈار بٹہ کراٹے کی طرح تہاڑ جیل میں ہی پھانسی کے پھندے کا کال کوٹھڑی میں منتظر ہوگا یا وہ عارف شاہد کی طرح باوقار موت پا کر سرِ دارٹھہرے گا۔بابائے قوم کیلئے شفیق سلیمی کا یہ شعر ہی شائد سب کچھ کا احاطہ کیے ہے،۔
اے میرے دوست مجھے دیکھ میں ہارا تو نہیں
میرا سر بھی تو پڑا ہے میری دستار کے ساتھ
واپس کریں