
جیسے سیکیورٹی ریاست کو ایک فرضی دشمن چاہیئے اسی طرح وہ نظریہ جس پر سیکیورٹی ریاست کھڑی ھوتی ھے کو کمزور کرنے والے نظریئے دشمن نظریئے کہلاتے ہیں جیسے سیکیولرزم سوشلزم وغیرہ
"سیکیورٹی ریاست" کی بنیاد اکثر ایک ایسے نظریے پر ہوتی ہے جو اپنی بقا کے لیے فرضی دشمنوں کی ضرورت محسوس کرتا ہے، اور یہ فرضی دشمن نہ صرف خارجی بلکہ داخلی بھی ہو سکتے ہیں، جیسے مخالف نظریات۔ یہ تصور سیاسی نظریہ میں عام ہے، خاص طور پر ممتاز دانشور کارل شمٹ کے "دوست اور دشمن" کی تمیز سے جڑا ہوا ہے، جہاں ریاست کی شناخت دشمن کی موجودگی سے قائم رہتی ہے۔ بعض اوقات یہ دشمن "فرضی" یا مصنوعی طور پر تخلیق کیے جاتے ہیں تاکہ عوام کو متحد رکھا جائے اور ریاست کی طاقت کو جواز مہیا کیا جائے۔سیکیورٹی ریاست کا تصورسیکیورٹی ریاست سے مراد ایسی ریاست ہے جہاں قومی سلامتی کو سب سے اوپر ترجیح دی جاتی ہے، اور فوجی یا انٹیلی جنس ادارے ریاست کے فیصلوں پر غالب ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملکوں میں یہ اصطلاح اکثر استعمال ہوتی ہے، جہاں فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو "ڈیپ سٹیٹ" یا سیکیورٹی اپریٹس کہا جاتا ہے۔ یہ ریاست اپنی بقا کے لیے مسلسل خطرات کی ضرورت محسوس کرتی ہے، کیونکہ سرکاری دانشور فوجی بجٹ، نگرانی، اور سیاسی کنٹرول کو جواز دیتے ہیں۔ جارج آرویل کی کتاب "1984" میں بتایا یہ گیا ہے کہ کئی ریاستیں کس طرح فرضی دشمن کو استعمال کر کے عوام کو کنٹرول کرتی ہیں۔
پاکستان کے تناظر میں، سیکیورٹی ریاست کی بنیاد "دو قومی نظریہ" پر ہے، جو مسلمانوں کو ہندوؤں سے الگ قوم قرار دیتا ہے اور اسلام کو ریاست کی بنیاد بناتا ہے۔ اس نظریے کے "محافظین" مخالف نظریات کو دشمن قرار دیتے ہیں تاکہ اپنی طاقت برقرار رکھ سکیں۔
اس لیے خارجی دشمن جیسے بھارت کے علاوہ داخلی مخالف نظریات کو بھی "دشمن" کا لیبل دیا جاتا ہے۔دشمن نظریات مثلا سیکیولرزم اور سیکیولرزم اور سوشلزم جو واقعی سیکیورٹی ریاست کے لیے چیلنج سمجھے جاتے ہیں۔ یاد رہے سیکیولرزم کا نظریہ مذہب اور ریاست کو الگ کرنے کی بات کرتا ہے، جو ریاست کے مطابق پاکستان جیسے ملک میں اسلامی بنیاد کو کمزور کر سکتا ہے۔ سیکیورٹی ریاست کے محافظین سیکیولرزم کو "اسلام کا دشمن" قرار دیتے ہیں، کیونکہ یہ دو قومی نظریے کو چیلنج کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، پاکستان کی تاریخ میں سیکولر دانشوروں یا سیاستدانوں (جیسے بھٹو کے ابتدائی دور میں) کو اکثر "غیر اسلامی" یا "غدار" کہہ کر دبایا گیا ہے۔ ناقدین کو اسلام کا دشمن قرار دے کر ریاست مخالفوں کو خاموش کیا جاتا ہے۔
عالمی سطح پر، liberalism (جو سیکیولرزم سے جڑا ہے) کو autocratic ریاستوں میں مخالف سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ فرد کی آزادی اور جمہوریت کو فروغ دیتا ہے۔
سوشلزم: یہ معاشی مساوات اور طبقاتی جدوجہد کی بات کرتا ہے، جو سیکیورٹی ریاست کی اشرافیہ اور سرمایہ دارانہ ڈھانچے کو خطرہ بن سکتا ہے۔ پاکستان میں، سوشلسٹ تحریکیں (جیسے 1960-70 کی دہائی میں مزدور اور کسان تحریکیں) کو اکثر "کمیونسٹ" یا "اتھئیسٹ" کہہ کر کچلا گیا، کیونکہ یہ اسلامی ریاست کے تصور کو چیلنج کرتی ہیں (سوشلزم کو اکثر مذہب مخالف سمجھا جاتا ہے)۔ عالمی طور پر، سوویت یونین جیسے سوشلسٹ بلاک کو مغربی سیکیورٹی ریاستوں (جیسے امریکہ) نے دشمن قرار دیا، جو سرد جنگ کا سبب بناجبکہ پاکستان میں بھی، بائیں بازو کی تحریکوں کو "بھارتی ایجنٹ" یا "دشمن" کا لیبل دے کر دبایا جاتا رہا ہے۔
فرضی دشمن کی ضرورت کیوں؟ جب حقیقی دشمن کم ہوں تو ریاست نئے دشمن تخلیق کرتی ہے، جیسے داخلی "ڈیجیٹل دہشت گرد" یا "سیاسی سازشیں"۔ پاکستان میں حالیہ برسوں میں، سیاسی مخالفین کو "قومی سلامتی کا خطرہ" قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ریاست کو نگرانی، سینسرشپ، اور فوجی مداخلت کا جواز دیتا ہے۔
واپس کریں