کسی کو مذہب کے نام پر من مانی نہیں کرنے دیں گے ۔وزیراعظم محمد شہباز شریف

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اعلان کیا ہے کہ کسی کو مذہب کے نام پر من مانی نہیں کرنے دیں گے اور مینارٹیز سے نا انصافی پر قانون حرکت میں آئے گا۔ گذشتہ روز کرسمس کے موقع پر سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ’’ایکس‘‘ پر جاری کردہ اپنے بیان میں اور اسلام آباد میں منعقدہ کرسمس کی ایک تقریب میں خطاب کے دوران پاکستان کی مسیحی برادری کو مبارکباد دیتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقلیتیں ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے حکومت کے شانہ بشانہ ہیں جبکہ بھارت میں مودی سرکار مذہب کے نام پر نفرت پھیلا رہی ہے۔ علاوہ ازیں چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے گذشتہ روز پنڈی چرچ کا دورہ کیا اور کرسمس کی تقریبات میں شرکت کی۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نظریہ پاکستان کی بنیاد ہے۔ انہوں نے بین المذاہب ہم آہنگی اور قومی یکجہتی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ قومی ترقی میں مسیحی برادری کا کردار قابلِ فخر ہے اور مسلح افواج آئین کے تحت تمام شہریوں بشمول اقلیتوں کی عزت، سلامتی اور مساوی حقوق کے تحفظ کیلئے پرعزم ہیں۔ دوسری جانب کرسمس کے تہوار کے موقع پر اقلیتوں پر مظالم ڈھانے والا بھارت کا جنونی مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے مکمل بے نقاب ہوگیا جہاں کرسمس کے موقع پر بھارت کی متعدد ریاستوں میں انتہاء پسند ہندوؤں نے بے قابو ہو کر کرسمس منانے والی اقلیتی مسیحی برادری پر حملے اور چرچز میں توڑ پھوڑ اور گھیراؤ جلاؤ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مدھیہ پردیش میں کرسمس کی چھٹی منسوخ کردی گئی اور سابق وزیراعظم واجپائی کی سالگرہ منانے کا حکم دے دیا گیا۔ اسی طرح دوسری بھارتی ریاستوں آسام، چھتیس گڑھ، اتر پردیش اور کیرالہ میں بھی ہندوتوا کے ایجنڈے کے تحت ہندو انتہاء پسندوں نے مسیحیوں پر حملوں کے ساتھ ساتھ چرچز میں توڑ پھوڑ بھی کی۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء تارڑ نے بجا طور پر باور کرایا ہے کہ ہندو توا نظریہ سے دوقومی نظریہ درست ثابت ہوا ہے۔ بانی ٔ پاکستان قائداعظم نے قیام پاکستان سے دو روز قبل گیارہ اگست 1947ء کو لیجسلیٹو اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہوگی اور ملک کے دیگر شہریوں کی طرح اقلیتوں کو بھی ان کے حقوق کا تحفظ دیا جائے۔ اسی تناظر میں پاکستان میں اقلیتوں کو تمام حقوق اور آزادیاں حاصل ہیں جس کا اعادہ گذشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف اور چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کرسمس کی مختلف تقریبات میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا ہے۔
اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کسی بھی مہذب، جمہوری اور ذمہ دار ریاست کی پہچان ہوتا ہے۔ پاکستان کے قیام کا نظریہ بھی اسی اصول پر استوار تھا کہ یہاں بسنے والے تمام شہری، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب، نسل یا عقیدے سے ہو، برابر کے حقوق کے حامل ہوں گے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947ء کی تاریخی تقریر میں واضح الفاظ میں اس ریاستی اصول کا اعلان کر دیا تھا کہ مذہب کا ریاستی امور سے کوئی تعلق نہیں ہوگا اور ہر شہری کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی حاصل ہوگی۔ یہی وہ نظریاتی بنیاد ہے جسے آج کی قیادت نہ صرف دہرا رہی ہے بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے اس کا اعادہ بھی کر رہی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کا سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اقلیتوں کے حوالے سے حالیہ پیغام دراصل اسی ریاستی عزم کا تسلسل ہے۔ وزیراعظم نے دوٹوک انداز میں کہا کہ اقلیتوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی ناانصافی برداشت نہیں کی جائے گی اور مذہب کے نام پر من مانی کرنے والوں کے خلاف قانون حرکت میں آئے گا۔ یہ بیان اس حقیقت کا مظہر ہے کہ ریاستِ پاکستان اقلیتوں کے تحفظ کو محض اخلاقی فریضہ نہیں بلکہ آئینی ذمہ داری سمجھتی ہے۔ پاکستان کا آئین تمام شہریوں کو مساوی حقوق دیتا ہے اور مذہبی آزادی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اقلیتوں کے مذہبی مقامات، عبادات اور تہواروں کو مکمل سرکاری تحفظ حاصل ہے۔
اسی تناظر میں چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل عاصم منیر کا پنڈی چرچ کا دورہ غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ کرسمس کے موقع پر ان کا چرچ جانا اور یہ کہنا کہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نظریہ پاکستان کی بنیاد ہے، اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست کے تمام ستون اقلیتوں کے تحفظ پر یکساں متفق ہیں۔ بین المذاہب ہم آہنگی اور قومی یکجہتی پر ان کا زور دراصل پاکستان کے مثبت تشخص کو اجاگر کرتا ہے، جہاں مختلف مذاہب اور ثقافتیں باہم احترام کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں۔ یہ پیغام نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ عالمی برادری کیلئے بھی ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان اقلیتوں کے حقوق کے معاملے میں کسی سمجھوتے پر یقین نہیں رکھتا۔
اس کے برعکس بھارت میں کرسمس کے موقع پر جو مناظر دنیا نے دیکھے، وہ نام نہاد سیکولر ریاست کے جھوٹے دعوؤں پر ایک زوردار طمانچہ ہیں۔ انتہاپسند ہندو عناصر کی جانب سے چرچز پر حملے، توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات اس بات کا ناقابلِ تردید ثبوت ہیں کہ بھارت میں اقلیتیں غیر محفوظ ہو چکی ہیں۔ مدھیہ پردیش میں کرسمس کی سرکاری چھٹی منسوخ کر کے واجپائی کی سالگرہ منانے کا حکم دینا محض ایک انتظامی فیصلہ نہیں بلکہ ایک مخصوص نظریے کو جبری مسلط کرنے کا واضح اظہار ہے۔ کئی دیگر بھارتی ریاستوں میں چرچز اور کرسمس منانے والے مسیحیوں کو نشانہ بنایا گیا، جس پر بھارتی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خاموشی مجرمانہ حد تک قابلِ مذمت ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے بجا طور پر اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے کہ اقلیتوں کے بارے میں پاکستان اور بھارت کا اصل چہرہ اب عالمی برادری کے سامنے آ چکا ہے۔ پاکستان میں اقلیتیں مکمل طور پر محفوظ ہیں، انہیں آئینی، شہری اور مذہبی حقوق حاصل ہیں اور ریاستی قیادت خود ان کے تحفظ کیلئے پیش پیش ہے۔ وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کی جانب سے کرسمس کے موقع پر مزید عزم کا اظہار اسی ریاستی پالیسی کی توثیق ہے۔ اس کے برعکس بھارت میں نہ صرف مسیحی بلکہ مسلمان، سکھ، دلت اور دیگر اقلیتیں بھی انتہاپسند ہندوؤں کے رحم و کرم پر ہیں، جبکہ مودی سرکار ان مظالم کی سرپرستی کر رہی ہے۔
حالیہ واقعات نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ ہندوتوا نظریہ دراصل ایک انتہاپسند، نسل پرستانہ اور فاشسٹ سوچ ہے، جو بھارت کو ایک ہندو انتہاپسند ریاست میں تبدیل کر چکا ہے۔ یہی وہ نظریہ ہے جس نے قیامِ پاکستان کے وقت دو قومی نظریے کو درست ثابت کیا تھا۔ اگر برصغیر کے مسلمان ایک الگ وطن حاصل نہ کرتے تو ان کا انجام بھی وہی ہوتا جو آج بھارت میں اقلیتوں کا ہو رہا ہے۔ مودی سرکار کے دور میں بھارت میں مذہبی عدم برداشت، نفرت انگیزی اور تشدد ریاستی پالیسی کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔
یہ صورتِ حال محض بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں رہی۔ ایک ایسا ملک جو اپنے ہی شہریوں کے حقوق پامال کرے، وہ علاقائی اور عالمی امن کیلئے بھی خطرہ بن جاتا ہے۔ بھارت کی جانب سے خطے میں جارحانہ رویہ، ہمسایہ ممالک کے خلاف سازشیں اور دہشت گردی کو فروغ دینے کے شواہد عالمی سطح پر موجود ہیں۔ اقلیتوں پر مظالم اسی وسیع تر انتہاپسندانہ سوچ کا حصہ ہیں جو دنیا کو عدم استحکام کی طرف دھکیل رہی ہے۔
اقوامِ عالم کی ذمہ داری ہے کہ وہ محض بیانات پر اکتفا کرنے کے بجائے عملی اقدامات اٹھائیں۔ اگر بھارت کے جنونی عزائم کے آگے بند نہ باندھا گیا تو اس کے نتائج صرف خطے تک محدود نہیں رہیں گے۔ عالمی امن کو لاحق خطرات اب واضح ہو چکے ہیں اور دنیا کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ انسانی حقوق، مذہبی آزادی اور امن کے ساتھ کھڑی ہے یا انتہاپسند ریاستی نظریات کی خاموش سرپرست بنی رہنا چاہتی ہے۔
پاکستان نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ، بین المذاہب ہم آہنگی اور قومی یکجہتی پر یقین رکھتا ہے۔ یہی رویہ اسے ذمہ دار ریاست کے طور پر ایک روشن چہرے کی صورت میں اجاگر کرتا ہے۔ اس کے برعکس بھارت کا انتہاپسند چہرہ اب بے نقاب ہو چکا ہے اور تاریخ گواہ رہے گی کہ کس نے انسانیت، رواداری اور امن کا ساتھ دیا اور کون نفرت، تشدد اور تباہی کا علمبردار بنا۔ عالمی برادری کو بھارت میں اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر اب خاموش تماشائی نہیں بننا چاہیئے بلکہ انتہاء پسند ہندوؤں کے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن کو لاحق خطرات کے پیشِ نظر ہندوتوا کے آگے بندھ باندھ کر اس کا پھیلاؤ روکنے کی تدبیر کرنی چاہیے بصورت دیگر بھارت کے ہاتھوں دنیا کی تباہی نوشتہ دیوار نظر آرہی ہے جو اس وقت عالمی دہشت گرد کے روپ میں کھل کر سامنے آچکا ہے۔
واپس کریں