
جب کسی سوال کو شجرِ ممنوعہ قرار دے کر مقدس چادر اوڑھا دی جائے تو سماج حرکت کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ مکالمے کے بغیر معاشرہ نہ سیکھتا ہے، نہ بدلتا ہے، بلکہ فکری بانجھ پن کا شکار ہو کر خود اپنی بربادی کا سامان پیدا کرتا ہے۔کسی بھی صحت مند سماج کے لیے مکالمہ بے حد ضروری ہوتا ہے۔ مکالمہ سماجی ارتقا میں بنیادی نوعیت کا کردار ادا کرتا ہے۔ جب کسی ایسے موضوع کو، جسے شجرِ ممنوعہ قرار دے دیا گیا ہو، مقدس پن کی چادریں اوڑھا کر اونچے طاق میں رکھ دیا جائے تو سماج رک جاتا ہے، ٹھہر جاتا ہے۔ فکری اور ذہنی بانجھ پن کے مارے لوگ سماج کی بربادی کا باعث بن جاتے ہیں۔ افسوس کہ ہم نے ایسا ہی سماج تشکیل دیا ہے۔ پچھلے 78 برسوں سے ہم یہی کچھ کرتے چلے آ رہے ہیں۔
سب سے پہلے ہم نے فنونِ لطیفہ کا گلا گھونٹ دیا۔ فکشن اور شاعری پر سیاہ حاشیے لگا دیے گئے۔ منٹو جیسے مہاگیانی کو نصابی کتب سے خارج کر دیا گیا۔ اقبال، جن کی شاعری کے کئی رنگ تھے، ان کی یک رخی شاعری کو نصاب میں شامل کیا گیا۔ مصوری کو مذہبی لبادے میں ڈھانپ دیا گیا، جبکہ مجسمہ سازی کو ہندو مت کی دشنام طرازی میں گھول دیا گیا۔ ایسے سماج میں مکالمہ کیسے ہو سکتا تھا؟
جو لوگ نصابی کتب پڑھ کر سند یافتہ ہوتے ہیں، وہ صرف سرکاری اور عالمی ساہوکار کمپنیوں کے ملازم بننے کے اہل ہوتے ہیں۔ وہ اس فکری بانجھ سماج میں تبدیلی برپا کرنے کا نہ سوچتے ہیں اور نہ ہی اس کے قابل ہوتے ہیں۔ جہاں کتب خانے ویران اور ریسٹوران آباد ہوں، وہاں قوم دماغ سے نہیں بلکہ معدے سے سوچنے کی عادی ہو جاتی ہے۔ اس کے نزدیک پانچ سو روپے کی کتاب سے زیادہ دو ہزار روپے کی بسیار خوری اہمیت رکھتی ہے۔سینما ہمارا ویسے ہی برباد ہے۔ سنجیدہ تھیٹر کے احیا کی ویسے بھی کوئی خاص کوشش نہیں کی گئی۔ ٹی وی ڈرامہ ضرور کامیاب ہے، مگر اس کا دائرہ دو سے تین موضوعات تک محدود ہے۔ اشاعتی اور برقی ذرائع ابلاغ پر جب آزادیٔ اظہار کی قدغن ہو تو مکالمہ کہاں باقی رہ جاتا ہے؟ سماجی رابطوں کے ذرائع ابلاغ بھی مکالمے کے بجائے شتر بے مہار مناظروں پر چل رہے ہیں۔
لیکن پڑوسی ملک ہندوستان اس معاملے میں ہم سے کہیں بہتر ہے۔ وہاں مکالمہ زندہ ہے، سماجی گھٹن نہیں پائی جاتی۔ وہاں کا فکشن، شاعری، فلم، ڈرامہ اور فنونِ لطیفہ کی دیگر اصناف آزادی کی فضا میں سانس لیتی ہیں۔ اخبارات اور ٹی وی آزادیٔ اظہار کا حق رکھتے ہیں۔ تب ہی ایک صحافی، ساور ترودی، ایک عالم مولانا شماہل ندوی، اور ایک اسکرپٹ رائٹر، شاعر اور دانشور جاوید اختر کے درمیان بیٹھ کر یہ مکالمہ کروا سکتا ہے کہ:
“کیا خدا کا وجود ہے؟”
یہ صرف بھارت میں ہی ممکن ہے۔ اور آخر میں جاوید اختر کا یہ جملہ:
“اب ہم مکالمے کے بعد اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھائیں گے۔”
واقعی، مکالمہ سماجی ارتقا کا باعث بنتا ہے۔ یہ ہندوستانی سیکولر آئین کی کامیابی ہے۔
واپس کریں