دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کور کمانڈرز کانفرنس کا اعلامیہ اور اپوزیشن کی حکومت سے مذاکرات پر آمادگی
No image چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی زیرِ صدارت 273 ویں کور کمانڈرز کانفرنس میں گذشتہ روز دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں شہید ہونے والے سکیورٹی فورسز کے افسران اور جوانوں اور معصوم شہریوں کی ارواح کو ایصال ثواب کے لیئے فاتحہ خوانی کی گئی اور ان کے لواحقین کے ساتھ ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا گیا۔ اس موقع پر فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے پاکستان کی مسلح افواج کی غیر متزلزل جرات، پیشہ ورانہ مہارت اور قربانیوں پر زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا اور دہشت گردی کے سدباب کے لئے افواج پاکستان کی پر عزم کاوشوں کو سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور افواج پاکستان کی مشترکہ کوششوں اور پاکستانی عوام کی ثابت قدم حمایت کے باعث ہمارا ملک بتدریج مگر یقینی طور پر استحکام، وسیع تر مواقع اور عزت و وقار کی طرف بڑھ رہا ہے۔ فورم نے ملک کی اندرونی اور بیرونی سلامتی کی صورت حال کا جامع جائزہ لیتے ہوئے ملک کو درپیش خطرات سے عہدہ برا ہونے کے لیئے اپریشنل تیاریوں پر زور دیا۔ شرکائے کانفرنس نے اس بات کا اعادہ کیا کہ بھارتی سرپرستی میں تمام دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور معاونین کے ساتھ فیصلہ کن طریقے سے بلا رعایت نمٹا جائے گا۔ فورم نے دہشت گردی، جرائم اور سیاسی مفادات کے درمیان گٹھ جوڑ کو یکسر مسترد کر دیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ قومی یکجہتی، سلامتی اور استحکام کو نقصان پہنچانے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی، چاہے وہ عناصر سیاسی ہوں یا کوئی بھی ہوں۔ مسلح افواج اور پاکستان کے عوام کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔ دریں اثناء اپوزیشن الائینس نے حکومت سے بات چیت پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے عمران خاں سے نئے میثاق پر دستخط کرانے کی ذمہ داری لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ حکومت سے مذاکرات پر آمادگی وزیراعظم شہباز شریف کی پیش کش پر ظاہر کی گئی۔ اس سلسلہ میں محمود خاں اچکزئی کی زیر صدارت اپوزیشن الائینس کے اجلاس میں کہا گیا کہ ہم شفاف انتخابات اور نئے الیکشن کمشنر کے تقرر پر حکومت سے مذاکرات کے لیئے تیار ہیں۔ اجلاس میں 8 فروری کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں یوم سیاہ منانے کا اعلان بھی کیا گیا۔ محمود خاں اچکزئی کے بقول ملک کو سیاسی اور معاشی بحران اور گورننس کے فقدان سے نکالنے کے لیئے نئے میثاق کی اشد ضرورت ہے۔اس مقصد کے لیئے ہم حکومت سے مذاکرات پر تیار ہیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ملک اس وقت ایک نازک مگر فیصلہ کن مرحلے سے گزر رہا ہے۔ اندرونی سیاسی کشمکش، علاقائی سلامتی کے چیلنجز اور معاشی بحالی کے تقاضے ایک ایسے قومی بیانیے کے متقاضی ہیں جو انتشار نہیں بلکہ یکجہتی، تصادم نہیں بلکہ استحکام، اور انا نہیں بلکہ آئین و قانون کی بالادستی پر مبنی ہو۔ چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل عاصم منیر کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس کا حالیہ اعلامیہ اسی قومی ضرورت کی بھرپور عکاسی کرتا ہے، جس میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ سیاسی عناصر ہوں یا کوئی اور، قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔
یہ پیغام محض ایک انتباہ نہیں بلکہ ریاستی پالیسی کا دوٹوک اعلان ہے۔ حکومت، افواجِ پاکستان اور عوام کی باہمی ہم آہنگی کے نتیجے میں پاکستان بتدریج مگر یقینی طور پر استحکام، وقار اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ ملک کو درپیش سنگین مسائل کا حل کسی ایک ادارے یا طبقے کے بس کی بات نہیں، اور اس کے لیئے اجتماعی قومی عزم اور قربانی کی ضرورت ہے۔بدقسمتی سے ہماری سیاسی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ جب بھی سیاسی اختلافات کو جمہوری دائرے میں رکھنے کے بجائے تصادم، اشتعال انگیزی اور دشمنی میں بدلا گیا تو اس کے نتائج ہمیشہ قومی نقصان کی صورت میں نکلے۔ اختلافِ رائے جمہوریت کا حسن ہے، مگر تخریب کاری، ریاستی اداروں پر حملے، آئین کی نفی اور انتشار پھیلانا کسی صورت سیاسی جدوجہد نہیں کہلا سکتا۔ یہی وہ باریک مگر نہایت اہم فرق ہے جسے بارہا نظرانداز کیا گیا اور جس کے نتائج آج بھی قوم بھگت رہی ہے۔حالیہ دنوں تحریک تحفظ آئین اور اب تحریک انصاف کی جانب سے بھی سیاسی معاملات پر حکومت سے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار خوش آئند پیش رفت ہے۔ یہ حقیقت تسلیم کی جانی چاہیے کہ قومی مسائل کا حل سڑکوں، دھرنوں، جلاؤ گھیراؤ یا ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے میں نہیں بلکہ مذاکرات، افہام و تفہیم اور آئینی عمل کے اندر رہ کر ہی ممکن ہے۔ تاہم اس کے ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ مذاکرات کی آڑ میں تخریب کاری، ریاست دشمن بیانیے اور انتشار کی سیاست کو کسی صورت برداشت نہ کیا جائے۔
کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیے میں اس امر پر زور دینا کہ تخریب کار عناصر سے آئین اور قانون کے مطابق نمٹا جائے گا، ایک بروقت اور ناگزیر فیصلہ ہے۔ ریاست کی اولین ذمہ داری ملک کی سلامتی، شہریوں کی جان، مال اور وقار کا تحفظ ہے۔ اگر کوئی گروہ یا عنصر، چاہے وہ سیاسی لبادے میں ہو یا کسی اور شکل میں، ملک کے امن، سلامتی اور استحکام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تو ریاست خاموش تماشائی نہیں بن سکتی۔ قانون کی عملداری ہی وہ واحد راستہ ہے جو ملک کو انتشار سے بچا سکتا ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کو اس وقت اندرونی خلفشار کے ساتھ ساتھ بیرونی سازشوں کا بھی سامنا ہے۔ دشمن قوتیں ہماری سیاسی کمزوریوں، معاشی مشکلات اور سماجی تقسیم سے فائدہ اٹھا کر ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتی ہیں۔ ایسے میں داخلی محاذ پر اتحاد اور یکجہتی ناگزیر ہے۔ سیاسی قیادتوں کو ذاتی مفادات، اقتدار کی ہوس اور وقتی سیاسی فائدے سے بالاتر ہو کر قومی مفاد کو مقدم رکھنا ہوگا۔افواجِ پاکستان نے ہر مشکل گھڑی میں ملک کا دفاع کیا ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا سرحدوں کا تحفظ، فوج نے قوم کے ساتھ مل کر بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ آج جب ملک معاشی بحالی اور سیاسی استحکام کی سمت بڑھ رہا ہے تو سول اور عسکری قیادت کا ایک پیج پر ہونا نہایت حوصلہ افزا امر ہے۔ یہ ہم آہنگی ہی پاکستان کو آگے لے جا سکتی ہے۔سیاسی جماعتوں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی صفوں میں نظم و ضبط قائم رکھیں، کارکنوں کو آئینی حدود کا پابند بنائیں اور نفرت، اشتعال اور ادارہ جاتی دشمنی کے بیانیے سے مکمل اجتناب کریں۔ جمہوری سیاست میں شکست و نصرت آتی جاتی رہتی ہے، مگر ریاست باقی رہتی ہے۔ ریاست کو کمزور کرنے والی سیاست درحقیقت خود سیاست کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیتی ہے۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی قوتیں قومی مکالمے کو فروغ دیں، آئین کی بالادستی کو تسلیم کریں اور قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے مطالبات پیش کریں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ اختلافِ رائے کو دبانے کے بجائے جمہوری انداز میں سنے، مگر ساتھ ہی ریاستی رٹ اور قانون کی عملداری پر کوئی سمجھوتہ نہ کرے۔اس حوالے سے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کی ترقی، استحکام اور وقار کا راستہ قومی یکجہتی، آئینی بالادستی اور قانون کی حکمرانی سے ہو کر گزرتا ہے۔ تخریب کاری اور انتشار کی سیاست نہ ماضی میں کامیاب ہوئی، نہ اب ہو سکتی ہے اور نہ مستقبل میں۔ قوم، افواجِ پاکستان اور ریاستی ادارے اس حقیقت پر متفق اور پرعزم ہیں کہ پاکستان کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا، بشرطیکہ ہم سب ذاتی اور گروہی مفادات سے بلند ہو کر قومی مفاد کو اپنا نصب العین بنائیں۔
واپس کریں