
آخر کار وہ بھی ایسے ہی خاموشی کے ساتھ چلی گئیں جیسے وہ اکثر خاموشی سے اکیلی بیٹھی ہوتی تھیں اور میں اچانک اُن کے کمرے میں داخل ہوتا تو انہیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ دل ہی دل میں اپنے رب سے باتیں کر رہی ہوں۔ اور اپنی اولاد کی کامیابیوں کیلئے دل میں اپنے رب سے جھگڑا کر رہی ہوں۔ وہ اُسی خاموشی سے، آہستہ سے، بغیر شور کے، بغیر شکایت کے چلی گئیں جیسے سب کی مائیں چُپ چاپ چلی جاتی ہیں۔ میری ماں چند ساعتوں میں منوں مٹی تلے جا کر سو گئیں۔ ہسپتال میں ہم سب بہن بھائی اُن کیلئے دعائیں کرتے رہے لیکن وہ کسی کی مانے بغیر رخصت ہو گئیں ۔ عبید نور ہسپتال کے سی سی یو وارڈ کے ایک کونے میں میری ایک بہن کے دعا کیلئے اُٹھے ہوئے وہ ناتواں ہاتھ کبھی نہیں بھول سکتے جو اس نے بے بسی میں ماں کے اُس رب کی طرف دیکھ کر پھیلائے ہوئے تھے جس کی وہ دن رات عبادت کرتی تھیں لیکن خدا نے اس کی درخواست رد کر دی کیونکہ یہی میرٹ کا تقاضا تھا اور خدا اپنے الہامی اصول کسی کیلئے نہیں توڑتا۔ ماں باپ اولاد کیلئے اس دنیا میں ایک سایہ دار شجر کی مانند ہوتے ہیں جو خود تو دنیا کی کڑی دھوپ، بارش اور تند طوفان جھیلتے ہیں مگر اپنی اولاد کو ایک خراش تک نہیں آنے دیتے۔ ان کے وجود سے زندگی قابلِ برداشت رہتی ہے۔ اگر ان میں سے ایک شخصیت رخصت ہو جائے تو دوسری شکل میں ہمیں کسی حد تک سہارا میسر رہتا ہے لیکن جب دونوں ہی چلے جائیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سر سے سائبان چھن گیا ہو اور ہم ایک تپتے ہوئے صحرا میں ننگے پاؤں اکیلے کھڑے ہوں۔
پانچ سال قبل میرے والد اس دنیا سے رخصت ہوئے تو اُس دن لگا تھا کہ زندگی نے اپنی آدھی روشنی سمیٹ لی ہے مگر ماں موجود تھیں اس لیے دل خود کو یہ دھوکا دے لیتا تھا کہ ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا۔ ماں کی دعا، ماں کی آواز، ماں کی موجودگی یہ سب زخموں پر مرہم کا کام کرتی رہتی تھی۔ لیکن اب جب ماں بھی منوں مٹی تلے جا سوئیں تو یوں لگا جیسے زندگی نے آخری چراغ بھی بجھا دیا ہو۔ ماں کا رشتہ کوئی عام رشتہ نہیں ہوتا یہ وہ ہستی ہوتی ہے جو ہماری خاموشیوں کو بھی پڑھ لیتی ہے جو ہماری غلطیوں کو بھی دعاؤں میں بدل دیتی ہے۔ یقیناً ماں کی گود پہلی پناہ گاہ ہوتی ہے اور اُس کی دعا آخری حصار۔ ماں کے بغیر گھر گھر نہیں رہتا۔ دیواریں تو وہی ہوتی ہیں مگر ان میں جان نہیں رہتی۔ دیواریں گھر کی بجائے مکان محسوس ہونے لگتی ہیں۔
باپ کا سایہ سر سے اٹھا تو زندگی کی دھوپ تیز ہو گئی مگر پوری فیملی نے ماں کی اوٹ میں کھڑے ہو کر خود کو محفوظ سمجھا۔ اب ماں بھی چلی گئیں تو احساس ہوا کہ اصل میں ہم دونوں کے سائے میں جی رہے تھے۔ اب نہ کوئی ڈانٹنے والا ہے جو فکر سے بھری ہو، نہ کوئی دعائیں دینے والا جو ہر خوف کو دور کر دے۔ اب محسوس ہوا کہ والدین کے جانے کے بعد انسان اچانک بڑا نہیں ہوتا بلکہ اچانک اکیلا ہو جاتا ہے۔ دنیا وہی رہتی ہے لوگ وہی رہتے ہیں مگر اندر کچھ ایسا ٹوٹ جاتا ہے جس کی آواز صرف دل سنتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ قبرستان سے واپسی پر ساتھ آنے والی خاموشی کے کسی خانے میں بیٹھ گئی ہے۔ والدین کے جانے کے بعد سب چیزیں بے رنگ ہو جاتی ہیں، کامیابیاں ادھوری لگتی ہیں اور ہنسی میں بھی ایک کسک شامل ہو جاتی ہے۔ کوئی پوچھے کہ سب ٹھیک ہے؟ تو دل چاہتا ہے کہ کہہ دیں۔ سب کچھ ہے بس ماں باپ نہیں ہیں۔ یہ عجیب قسم کا زخم ہے کیوں کہ وقت زخموں کو بھر دیتا ہے مگر والدین کا زخم ایسا ہوتا ہے جو بھر تو جاتا ہے مگر نشان ہمیشہ رہتا ہے۔ ایک ایسا نشان جو ہر خوشی میں ہر کامیابی میں اور ہر تنہائی میں خاموشی سے دکھتا رہتا ہے۔
ماں چلی گئیں۔۔ اور اپنے ساتھ دعاؤں کی ایک دنیا، شفقت کا ایک سمندر اور محبت کا ایک بے مثال خزانہ بھی لے گئیں۔اب بس یادیں ہیں اور آنکھوں میں ٹھہرے وہ آنسو ہیں جو لفظوں میں کبھی مکمل ادا نہیں ہو سکتے۔ الله پاک میرے والدین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں یہ ہمت دے کہ ہم اس سائبان کے بغیر بھی زندگی کا بوجھ اٹھا سکیں۔ (آمین)
واپس کریں