
یہ کیسی افسوس ناک بات ہے کہ ایک ایسا ادارہ جو کبھی دوسرے ممالک کی ائیرلائنز کے لیے مثال سمجھا جاتا تھا، آج حکومت کے لیے بوجھ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس صورتحال کا بنیادی سبب دہائیوں پر محیط غلط فیصلے، سیاسی مداخلت، انتظامی ناکامی اور مالی بدعنوانی ہے۔ وہ افراد جن کے غلط فیصلوں اور ناقص کارکردگی نے اس ادارے کو نقصان پہنچایا واقعی احتساب کے مستحق ہیں تاکہ مستقبل میں اس قسم کی غفلت دہرانے کی حوصلہ شکنی ہو۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ اگر قومی اداروں میں وقتاً فوقتاً اصلاحات کی جاتی رہتیں تو کیا نجکاری تک نوبت آتی؟۔ نجکاری کی حمایت کرنے والے حلقوں کا موقف ہے کہ حکومت کا بنیادی کام کاروبار چلانا نہیں بلکہ پالیسی سازی اور نگرانی ہے۔ نجی شعبہ بہتر انتظام، جدید ٹیکنالوجی اور مارکیٹ کے مطابق فیصلہ سازی کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دوسری طرف ناقدین کا کہنا ہے کہ قومی ادارے فروخت کرنے کے بجائے انھیں مضبوط بنایا جائے تاکہ وہ ملک کو مالی اور سماجی فائدہ پہنچا سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نجکاری کوئی مستقل حل نہیں بلکہ پالیسی کا ایک حصہ ہے۔ اگر حکومت دیگر قومی اداروں میں بروقت اصلاحات، پیشہ ورانہ تقرریاں اور مالی نظم و ضبط کو یقینی بنائے تو نجکاری جیسے فیصلے نہیں کرنے پڑیں گے۔ یہ نجکاری صرف ایک ادارے کی فروخت نہیں بلکہ حکومتی گورننس، شفافیت اور قومی مفاد کا امتحان ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ یہ فیصلہ پاکستان کی معیشت، عوامی مفاد اور عالمی ساکھ کے لیے مثبت رہنمائی فراہم کرے گا۔
واپس کریں