دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کشکول کا بڑا ہوتا سائز۔احتشام الحق شامی
No image پیٹرولیم ڈویژن کے مطابق”ایک لیٹر پیٹرول قیمت میں 96 روپے 28 پیسے یعنی 37 فیصد ٹیکس شامل ہے“۔اسی سے ملتی جلتی صورت حال بجلی اور سوئی گیس کے بلوں کی بھی ہے یعنی وہاں بھی صارفین اپنے ٹوٹل بل کا تقریباً 37 فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔باقی اگر ماچس کی ڈبیا سے شروع کریں تو ماسوائے قدرتی آکسیجن کے ہر چیز پر ٹیکس ادا کیا جاتا ہے اوریہ ڈائریکٹ ٹیکس ہے،جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا ٹیکس بھی شامل ہے جو دینا ہی دینا ہے جبکہ انکم ٹیکس اور دیگر ٹیکسس اس کے علاوہ ہیں،جن کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن اگر آپ کسی لوکل یا حکومتی ماہر معاشیات کے پاس دس منٹ بیٹھ جائیں تو اس کا پہلا ڈائیلاگ یہ ہو گا کہ”لوگ ٹیکس نہیں دیتے“
امر واقع یہ ہے کہ یہ اب ریاستی پالیسی بن چکی ہے کہ طاقتور طبقات کو ہاتھ نہ لگایا جائے۔ اس مراعات یافتہ طاقت ور طبقے میں سیاست دان، بیوروکریٹس، صنعت کار، تگڑے محکموں کے افسران اور وہ تمام لوگ بھی جو پارلیمان کے اندر رسائی رکھتے ہیں۔ ان لوگوں میں سے کسی سے انکم ٹیکس سے متعلق کوئی سوال نہیں ہوتا، نہ ان کے گوشوارے کھنگالے جاتے ہیں، نہ ان کے ٹیکس کی اصل صورتحال پر انگلی اٹھتی ہے اور در حقیقت یہی وہ لوگ ہیں جو ٹیکس نہیں دیتے۔
تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ مختلف حکومتیں اپنی رپورٹس میں تسلیم کر چکی ہیں کہ بڑے صنعت کار، بڑے سرمایہ دار اور سیاسی اثرورسوخ رکھنے والی شخصیات ٹیکس نیٹ میں موجود نہیں آتیں۔ ہماری سرکار کی عیاشیاں، معاشی اور اقتصادی پالیسی کے چال چلن اگر یونہی برقرار رہے تو اس ملک کی معیشت کا پہیہ کبھی سیدھا نہیں گھومے گا اور عالمی ساہو کار آئی ایم ایف کے سامنے ہمارے غیر ملکی قرضوں اور کشکول کا سائز وقت کے ساتھ مذید بڑا ہوتا رہے گا۔
واپس کریں