نئے عدالتی سیٹ اپ کا آغاز ۔ کیا اب عام آدمی کیلئے عدالتوں سے ریلیف ممکن ہو گا

یہ حقیقت ہے کہ ہماری عدل گْستری بروقت اور بے لاگ فراہمی ٔ انصاف کے معاملہ میں اب تک عوام کی توقعات پر پوری نہیں اتر پائی جبکہ ہمارے معاشرے میں جرائم بڑھنے سے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بتدریج بڑھ رہا ہے۔ بالخصوص ملک کی سول اور سیشن عدالتوں میں اس وقت بھی لاکھوں مقدمات زیر التوا پڑے ہیں اور سائلین انصاف سے مسلسل محروم چلے آرہے ہیں جبکہ ہماری عدلیہ کے بارے میں یہ ضرب المثال پختہ ہو چکی ہے کہ دادے کا دائر کردہ کیس پوتا بھگت رہا ہوتا ہے اور اس کی زندگی میں بھی داد رسی کی کم ہی نوبت آتی ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہونے والے ہر فاضل جج کی جانب سے انصاف کی فراہمی کا عمل تیز کرنے اور بیک لاگز ختم کرنے کا عہد ضرور کیا جاتا رہا مگر انصاف کی راہ میں حائل آئینی، قانونی رکاوٹوں اور فریقین کے وکلاء کی جانب سے اختیار کئے جانے والے تاخیری حربوں کے باعث فوری اور بے لاگ انصاف کا تصور گہناتا ہی رہا ہے۔
اس حوالے سے یہ شکایت بھی عام ہے کہ حکومت کی جانب سے عدالتوں میں انصاف کی عملداری کا ماحول سازگار بنانے کا کبھی تردد ہی نہیں ہوا۔
عدلیہ کو نہ مطلوبہ فنڈز دستیاب ہوتے ہیں نہ مفصّل سے اعلیٰ عدالتوں تک ججوں کی مطلوبہ تعداد پوری کی جاتی۔ اس طرح عدل گستری میں میرٹ کا تقاضہ بھی پورا نہیں ہوپاتا۔ اس کے علاوہ وکلاء برادری کی جانب سے کسی نہ کسی ایشو پر آئے روز ہڑتال اور عدالتوں کے بائیکاٹ کا راستہ اختیا کیا جاتاہے تو یہ عمل بھی انصاف کی فوری اور برقت فراہمی کیلئے سدّ راہ بن جاتا ہے۔ وکلاء تنظیموں کی جانب سے انصاف کی فوری اور بے لاگ فراہمی پر تو زور دیا جاتا ہے مگر مقدمات کو لٹکائے رکھنے کیلئے وکلاء برادری کی جانب ہی سے تاخیری حربے اختیار کر کے فوری انصاف کا راستہ روک لیا جاتا ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اب عام سائیلان کیلئے فوری اور سستے انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے تاکہ انصاف کی عملداری پر عوام کا اعتماد پختہ ہوسکے۔ سپریم کورٹ کی فل کورٹ نے گذشتہ روز اپنی میٹنگ میں اسی حوالے سے سپریم کورٹ کے نئے رولز کی منظوری دی ہے۔ انصاف کی بروقت اور آسان فراہمی کیلئے جو اقدامات حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے کے متقاضی ہیں وہ اب بلا تاخیر اٹھا لئے جانے چاہئیں۔
عوام کو آئینی موشگافیوں سے زیادہ اپنے روزمرہ کے معاملات و مسائل میں فوری ریلیف اور داد رسی کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ان کی مایوسی پورے سسٹم سے مایوسی سے ہی تعبیر ہو گی۔
روزنامہ نوائے وقت کے اداریہ سے اقتباس
واپس کریں