صفائی ایمان کا حصہ ،بنجوسہ کی پہچان۔کالم نگار سردار ساجد محمود

بنجوسہ، قدرت کے حسین نظاروں سے مزین ازادکشمیر ایک خوبصورت وادی ہے، جہاں نیلگوں جھیل کے کنارے سر سبز پہاڑ قدرتی جنگل کے درختوں اور جڑی بوٹیوں کی خوشبودار ہوا دلوں کو سکون اور تقویت بخشتی ہے۔ یہ علاقہ نہ صرف اہلِیان بنجوسہ کا فخر ہے بلکہ آزاد کشمیر اور پاکستان کے اہم سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ مگر یاد رکھیے! قدرت کی یہ خوبصورتی اسی صورت میں برقرار رہ سکتی ہے جب ہم سب صفائی کو اپنا شعار بنائیں، کیونکہ صفائی نصف ایمان اور ترقی کا زینہ ہے۔
اسلام نے ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں پاکیزگی اور صفائی کا درس دیا ہے۔ قرآن و حدیث میں بارہا صفائی کو ایمان کا جزو قرار دیا گیا۔ نبی اکرم کی حدیث جس کا ترجمہ
یعنی "صفائی ایمان کا نصف ہے۔"
یہ تعلیم صرف انفرادی طور ظاہری اور روحانی صفائی تک محدود نہیں بلکہ اپنے ماحول، گلیوں، پگڈنڈیوں ،بازار، اسکول، اور گھروں کے آس پاس کو صاف اور پاک رکھنے کا بھی حکم دیتی ہے۔
جب ایک علاقے کے لوگ صفائی اور نظم و ضبط کو اپناتے ہیں تو سمجھ لیں کہ وہ ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہیں۔
دنیا کے کئی ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ جاپان، سنگاپور اور سوئٹزرلینڈ نے صفائی کو قومی عزم بنایا، اور آج ان کے شہر دنیا کے "ماڈل ویلیجز" کہلاتے ہیں۔
بنجوسہ ڈویلپمنٹ کونسل (BDC) نے جس وژن کے ساتھ بنجوسہ کو "ماڈل ویلج" میں تبدیل کرنے کا عزم کر رکھاہے، یہ صفائی مہم اسی سلسلہ کی کڑی اور خواب کی عملی تعبیر ہے۔ 22 نومبر کو بنجوسہ بازار سے جھیل تک ہونے والی آگاہی واک صرف ایک سرگرمی کے طور ہرگز نہیں بلکہ واضح پیغام ہے کہ ہم سب مل کر اپنے علاقے کو صاف، خوبصورت اور پُرکشش بنانا چاہتے ہیں۔ اس واک میں سکولوں کے بچے، نوجوان، خواتین اور معززین علاقہ سب شریک ہوں گے تاکہ ہم اجتماعی قوت سے ثابت کریں کہ بنجوسہ کا ہر فرد اپنے ماحول کی حفاظت میں کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔
بی ڈی سی کا بنیادی مقصد صرف تعمیر و ترقی نہیں، بلکہ اتفاق، اتحاد ،باہمی تعاون، امن اور اجتماعی شعور کو فروغ دینا ہے۔ جب گاؤں کا ہر فرد، ہر مکتبِ فکر اور ہر وارڈ ایک مقصد کے لیے متحد ہو جائے تو کوئی بھی منزل دور نہیں رہتی۔ صفائی مہم دراصل اس اتحاد کی علامت ہے۔ ایک ایسا عزم جو بنجوسہ کو باقی علاقوں کے لیے مثال بنائے گا۔
چونکہ بنجوسہ ایک ٹورسٹ پوائنٹ ہے، اس لیے یہاں صفائی کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔ سیاح وہی مقامات پسند کرتے ہیں جو صاف ستھرے، منظم، پرامن اور خوشگوار ہوں۔ اگر ہم اپنے راستوں، جھیل کے ارد گرد علاقوں اور بازاروں کو صاف رکھیں تو نہ صرف ہماری صحت بہتر ہوگی بلکہ سیاحت میں اضافے کا باعث ہو گا، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، اور ہمارا علاقہ مزید خوشحال ہوگا۔
دنیا بھر میں "ماڈل ویلیجز" کے قیام میں صفائی پہلا قدم رہی ہے۔ مثلاً انڈیا کا گاؤں “سوچیالہ” جس نے صفائی کو قومی مہم بنایا اور آج دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں یہ دیکھنے کہ کس طرح دیہی آبادی نے اپنا ماحول سنوارا۔ جاپان کے گاؤں “کامی کاتسو” میں لوگ 80 فیصد فضلہ ری سائیکل کرتے ہیں، اور آج وہ "زیرو ویسٹ ویلیج" کے نام سے مشہور ہے۔ اسی طرح پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں سوات کا گاؤں “مٹلتان” ایک خوبصورت مثال ہے جہاں مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت صفائی مہم شروع کی۔ گاؤں کے نوجوانوں نے جھیل اور بازار کے اطراف کچرا صاف کیا، شجرکاری کی، اور اب مٹلتان ایک صاف ستھرا سیاحتی گاؤں بن چکا ہے جس کی بدولت سیاحوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جب عوام خود آگے بڑھتے ہیں تو تبدیلی ممکن ہوتی ہے۔
اگر مٹلتان، سوچیالہ اور کامی کاتسو جیسے گاؤں اپنے ماحول کو سنوار سکتے ہیں تو بنجوسہ کیوں نہیں؟ بنجوسہ بھی ان سے بہتر بن سکتا ہے۔ ایک صاف، پُرکشش، اور باہمی اتحاد سے ترقی یافتہ ماڈل ویلج میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
صفائی مہم اور آگاہی واک کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں ہر وارڈ سے نمائندہ شرکت کو یقینی بنایا جائے۔ سکولوں، مذہبی اداروں اور خواتین کو پہلے سے مہیم کے مقاصد سےآگاہ کیا جائے تاکہ شرکت محض رسمی نہ ہو بلکہ شعوری اور عملی ہو۔ واک کے دوران بچوں کو صفائی سے متعلق نعرے، پلے کارڈز اور بینرز کے ذریعے پیغام عام کرنے کا موقع دیا جائے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس سرگرمی کی تشہیر کی جائے تاکہ عوامی سطح پر اس مہم کا اثر وسیع تر ہو۔ واک کے اختتام پر اگر کوئی مختصر تقریب رکھی جائے جس میں شرکاء باالخصوص سکول کے بچوں کو تعریفی سرٹیفکیٹس دیے جائیں تو یہ عمل ان کے اندر طویل المدتی جذبہ پیدا کرے گا۔
اس مہم کے دور رس اثرات یقیناً بنجوسہ کے مستقبل کو روشن بنا سکتے ہیں۔ جب ایک معاشرہ صفائی اور نظم و ضبط کا عادی بن جاتا ہے تو وہاں بیماریوں میں کمی آتی ہے، عوامی رویوں میں مثبت تبدیلی پیدا ہوتی ہے، اور سیاحتی و معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور خواتین کو بھی لیڈرشپ میں کردار ادا کرنے کا موقع ملے گا۔ بنجوسہ کی صفائی مہم دراصل ایک سماجی تحریک کی حیثیت اختیار کر سکتی ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے بہتر ماحول کی ضمانت اور گرد ونواح کے علاقوں کے لیے مثال بنے۔
تاہم یہ جذبہ ایک دن یا ایک واک تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ BDC اس مہم کو مستقل بنیادوں پر جاری رکھے۔ ہر وارڈ میں صفائی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں، ماہانہ صفائی دن مقرر کیا جائے، اور مقامی دکانداروں اور سیاحتی ادارے کے نمائندوں کو بھی اس مہم کا حصہ بنایا جائے تاکہ صفائی صرف ذمہ داری نہیں بلکہ اجتماعی ثقافت کا حصہ بن سکے۔ متعلقہ محکمہ جات کو جھیل کے اردگرد واقع گیسٹ ہاؤسز کی سیوریج لائنوں کو جھیل سے علحیدہ کیے جانے کی ترغیب کی ضرورت ہے ۔
اسی تسلسل میں ایک قابلِ عمل تجویز یہ ہے کہ علاقے کے تمام تعلیمی اداروں میں “صفائی دوست کلاس” کا تصور متعارف کرایا جائے۔ ہر سکول میں ماہانہ بنیادوں پر صفائی اور ماحول دوست سرگرمیوں کے متعلق موضوعات پر لیکچرز اور مباحثوں کا اہتمام کیا جا سکتا ہے جسمیں اساتذہ کرام اپنا کردار ادا کر سکتے۔ اس سے بچوں میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہوگا، وہ عملی طور پر صفائی میں حصہ لیں گے اور یہ عادت ان کی گھریلو و سماجی زندگی کا حصہ بن جائے گی۔ اس طرح تعلیمی ادارے نہ صرف علم بلکہ کردار سازی کے بھی مراکز بن جائیں گے۔
آئیے! 22 نومبر کو ہم سب بچے، خواتین، نوجوان اور بزرگ ایک آواز بن کر نکلیں، تاکہ یہ پیغام عام ہو کہ صفائی صرف ذمہ داری نہیں، عبادت ہے۔ ہمارا عزم ہے۔ بنجوسہ کی خوبصورتی ہماری پہچان ہے، اور اس پہچان کو برقرار رکھنا ہمارا ایمان ہے۔
“صاف بنجوسہ، خوبصورت بنجوسہ ہمارا خواب، ہمارا فخر”
واپس کریں